حدیث {۴۰ } Hadees 40

حدیث {۴۰ }

عَنْ مُعَاوِیَۃَ قَالَ ، قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم مَنْ یُرِدِ اﷲُ بِہٖ خَیْرًا یُفَقِّھْہُ فِیْ الدِّیْنِ وَاِنَّمَا اَنَا قَاسِمٌ وَاﷲ یُعْطِيْ۔  مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ(1)
ترجمہ : حضرت سیدنا معاویہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  سے مروی ہے رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ جس شخص کے حق میں اﷲ تعالیٰ بہتری کا ارادہ رکھتا ہے اسے دین کی سمجھ دیتا ہے ۔ یعنی اسے عالم فقیہ بنادیتا ہے۔ سوائے اس کے نہیں میں تقسیم کرنے والا ہوں (2) اور 
خدا تعالیٰ دیتا ہے۔ یعنی ہر وہ چیز کہ خدا دیتا ہے اس کو میں تقسیم کرنے والا ہوں ۔ معلوم ہوا کہ جس کو جو کچھ ملتا ہے حضور سرورِدوعالم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم ہی کے ہاتھوں ملتا ہے ۔ اور وہ ہر ایک کو حسبِ مراتب عطا فرماتے ہیں ۔ انہیں علم ہے کہ فلاں اس قابل ہے اور فلاں اس قابل۔ وَ اللّٰہُ تَعَالیٰ اَعْلَمُ
ھٰذَا اٰخِرُ مَا أَرَدْنَا فِيْ ھٰذَا الْبَابِ فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِيْ بِنِعْمَتِہٖ تَتَمَّ الصَّالِحَاتُ۔ 




________________________________
1 -    صحیح البخاری ۱ ، ۳۹ ، ۲ ، ۹۳۹ ، ۶ ، ۲۶۶۷ ،  الصحیح لمسلم ۲ ، ۷۱۹۔ 
2 -    شارحِ بخاری فقیہ ِ اعظم ہند حضرت مولانا مفتی محمد شریف الحق امجدی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ حدیث ’’ اِنَّمَا اَنَا قَاسِمٌ وَاللّٰہُ یُعْطِیْ‘‘ کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ کہ یہاں صرف ’’ قاسم ‘‘ ہے اور بخاری کتاب الجہاد میں تعلیقاً قاسم کے ساتھ خازن بھی ہے(بخاری ۱ ، ۴۳۹) ، معانی کا قاعدہ ہے کہ فعل یا شبہ فعل کا متعلق بھی اس کا مفعول وغیرہ جب محذوف ہوتا ہے تو وہ عموم کا افادہ (فائدہ دیا) کرتا ہے۔ یہاں قاسم (وہاں)خازن ، یُعطی تینوں کے مفعول محذوف۔ آج تک جوکچھ ملا ، یاآئندہ ملے گا ان سب کا دینے والا اﷲ تعالیٰ ہے اور ان سب کا خازن میں ہوں اور ان سب کا بانٹنے والا میں ہوں۔ جس طرح اﷲتعالیٰ کے معطی ہونے میں کسی قسم کی کوئی تخصیص(مخصوص کرنا) جائز نہیں۔ اسی طرح حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے قاسم  وخازن ہونے میں کسی قسم کی تخصیص جائز نہیں۔ جس طرح تمام مسلمانوں کا اعتقاد ہے کہ عالم کی ہر نوع ہر فرد خواہ وہ فرشتے ہوں۔ خواہ وہ انسان خواہ جن ہوں خواہ اور کچھ سب کو سب کچھ اﷲتعالیٰ کی عطاء سے ملا اور ملے گا۔ اِ سی طرح یہ اعتقاد بھی واجب کہ سب کو بلااستثناء جو کچھ ملا یا ملے گا وہ سب حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے دیئے سے ملا۔ اس لیئے جن لوگوں نے اسے علم کے ساتھ خاص کیا یہ درست نہیں۔ حیات بھی از قسم عطا ہے تو سب کو حیات بھی حضور عَلَیْہِ السَّلَام کے ہاتھوں ملی تو ثابت ہوا کہ ہر ذی حیات سے پہلے حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم موجود تھے۔ اور آپ کی تخلیق سارے عالم سے پہلے ہوئی۔ خواہ وہ آدم عَلَیْہِ السَّلَام ہوں خواہ جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام و دیگر ملائکہ علیہم السلام ۔ امام احمد بن حنبل و امام بخاری کے استاذ امام عبد الرزاق علیہم الرحمۃ نے حضرت جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت کیا۔ یَا جَابِرُ اِنَّ اﷲ َ تَعَالیٰ قَدْ خَلَقَ قَبْلَ الاَشْیَائَ نُوْرَ نَبِیِّکَ مِنْ نُوْرِہٖ۔ اے جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ! اﷲ تعالیٰ نے تمام چیزوں سے پہلے تیرے نبی کے نور کو اپنے نور سے پیدا کیا۔  اَلْمَوَاھِبُ لدُنّیۃ ۱ / ۵۵ ، مدارج النبوۃ ۲ / ۲ ،  شَرْحُ الْمَوَاھِبِ لِزَرْقَانِیْ  ۱ / ۴۶ ،  نُزْھَۃُ الْقَاِریْ شَرْحُ الْبُخَارِیْ ۴۲۵تا ۴۲۶۔ 
کنجیاں اپنے خزانوں کی خدا نے دی تمھیں
اپنے رب کے ازن سےتم مالک و مختار ہو



Post a Comment

0 Comments