حدیث {۳۲} Hadees 32

حدیث {۳۲}

عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ کُنَّا إِذَا صَلَّیْنَا مَعَ النَّبِیّ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم قُلْنَا اَلسَّلاَمُ عَلَی اﷲِ قِبَلَ عِبَادِہ اَلسَّلامُ عَلیٰ جِبْرَائِیْلَ اَلسَّلامُ عَلیٰ مِیْکَائِیْلَ اَلسَّلاَمُ عَلٰی فُلانٍ فَلَمَّا اِنْصَرَفَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم اَقْبَلَ عَلَیْنَا بِوَجْھِہٖ قَالَ لاَ تَقُوْلُوْا اَلسَّلاَمُ عَلَی اللّٰہِ فَإِنَّ اللّٰہَ ھُوَ السَّلاَمُ فَإِذَا جَلَسَ أحَدُکُمْ فِی الصَّلوٰۃِ فَلْیَقُلْ اَلتَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ وَالصَّلٰوَاۃُ وَالطَّیِّبَاتُ اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اﷲِ وَبَرَکَاتُہ‘ اَلسَّلاَمُ عَلَیْنَا وَعَلیٰ عِبَادِ اﷲِ الصَّالِحِیْنَ فَإِنَّہٗ إِذَا قَالَ ذٰلِکَ اَصَابَ کُلَّ عَبْدٍ صَالِحٍ فِی السَّمَآئِ وَالْأَرْضِ اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہ‘ وَرُسُوْلُہ‘ ۔  مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ (1)
ترجمہ : - حضرت سیدنا عبد اﷲبن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  فرماتے ہیں کہ ہم جب رسول کریم  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے ساتھ نماز پڑھتے تھے تو کہتے تھے سلام ہو اﷲ عَزَّ وَجَلَّ پر سلام ہو جبرائیل عَلَيْهِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام پر سلام ہو میکائیل عَلَيْهِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامپر سلام ہو فلاں پر ۔ تو جب رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نماز سے پھرے تو ہماری طرف منہ کرکے فرمایا یہ نہ کہا کرو کہ اﷲ پر سلام ہو کیونکہ اﷲ ہی سلام ہے ۔ جب تمہارا کوئی نماز میں بیٹھے تو یہ پڑھے 
اَلتَّحِیَّاتُ ِﷲِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّیِّبَاتَُ اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ وَ بَرَکَاتُہٗ اَلسَّلاَمُ عَلَیْنَا وَ عَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ اَشْھَدُ اَن لاَّ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ (1)۔ اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا۔
اس حدیث میں سرورعالم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے سلام بلفظ خطاب سکھایا۔ اور حضور عَلَيْهِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کو معلوم تھا کہ لوگ نماز ہمیشہ میرے پاس ہی نہیں پڑھیں گے کوئی گھر میں کوئی سفر میں کوئی جنگل میں کوئی کسی جگہ کوئی کسی جگہ پڑھے گا اور ہر جگہ یہی لفظ بصیغہ خطاب پڑھا جائے گا۔ اگرحضورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کو سلام بصیغہ منع کرناہوتا تو آپ تشہد میں ہرگز اجازت نہ دیتے ۔ اور یہ بھی ثابت ہوگیا کہ یہاں خطاب بطریق حکایت نہیں بلکہ بطریق اِنشا ہے (2)۔ کیونکہ حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے فرمایا

اَلسَّلَامُ عَلیٰ عِبَادِ اﷲِ الصَّالِحِیْنَ کہنے سے سب صالحین کو یہ سلام پہنچے گا۔ اگر حکایت ہوتی تو حکایتی سلام نمازی کی طرف سے کیسے ہوسکتا ہے ۔ معلوم ہوا کہ حکایتی نہیں بلکہ اِنشا ہے ۔
________________________________
1 -   ترجمہ  : تمام قولی و بدنی اورمالی عبادتیں اﷲ تعالیٰ کیلئے ہیں۔ اے غیب کی خبریں بتانے والے (نبی) صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم آپ پر سلام ہو اور اﷲ تعالیٰ کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں ، ہم پر سلام ہو اور اﷲ تعالیٰ کے نیک بندوں پر ، میں گواہی دیتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں میں گواہی دیتا ہوں کے بیشک محمد صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم اﷲ تعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔
2 -   دیوبندیوں کا مسلک یہ ہے کہ نماز کے تشہد میں جب اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ وَ بَرَکَاتُہ ( اے نبی آپ پر سلام ہو اور اﷲ تعالیٰ کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں) کہا جائے تو حضور پر قصداً سلام کرنے کی نیت نہ کرے بلکہ یہ نیت کرے کہ اﷲ تعالیٰ نے شب معراج رسول اﷲ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم پر جو سلام پڑھا تھا میں اس سلام کی نقل اور حکایت کررہا ہوں ۔



Post a Comment

0 Comments