حدیث {۲۲} Hadees 22

حدیث {۲۲}

بلند آواز سے آمین کہنا 
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ اَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم قَالَ اِذَا قَالَ الْاِمَامُ غَیْرِِ الْمَغْضُوْبِِ عَلَیْھِِمْ وَلَاالضَّآلِیْنَ فَقُوْلُوْا آمِیْن فَاِنَّہٗ مَنْ وَافَقَ قَوْلَ الْمَلٰئِکَۃِ غُفِرَ لَہ‘ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ۔  رَوَاہٗ الْبُخَارِِیْ(3)

ترجمہ : -حضرت سیدنا ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے کہ رسول کریم ، رؤف رّحیم  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے فرمایا جب امام غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَ لاَ الضَّالِّیْنَ کہے تو تم آمین کہو ۔ کیونکہ جس کی آمین ملائکہ کی آمین کے ساتھ موافق ہوگئی اس کے پچھلے گناہ معاف ہوگئے۔ 
اس کو بخاری نے روایت کیا۔ اس روایت سے معلوم ہوا کہ آمین اخفا(1)کے ساتھ کہنی چاہیئے ۔ کیونکہ اگروہ جہر (2)ہوتی تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نہ فرماتے جب امام ’’وَ لاَ الضَّآلِّیْنَ ‘‘کہے تم آمین کہو بلکہ یوں فرماتے کہ جب امام آمین کہے تو تم آمین کہو ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جمہور محدثین نے ’’اِذَا اَمَّنَ‘‘کے معنی ’’اِذَا اَرَادَ التَّأمِیْنَ‘‘ کئے ہیں ۔ یعنی جب امام آمین کہنے کا ارادہ کرے تو تم آمین کہو ۔ اور وہ ارادہ  ’’ وَلاَ الضَّآلِّیْنَ‘‘ختم کرنا ہے ۔ جمہور نے یہ معنی جمع بین الحدیثَین (3) کیلئے کئے ہیں ۔ تو جب اس حدیث کے معنی إذا أراد التامین ہوئے تو اس سے جہر آمین ثابت نہیں ہوتا۔ 
علاوہ اسکے ایک دوسری حدیث میں جس کوامام احمدنسائی دارمی(4) نے روایت کیا ہے آیا ہے فَاِنَّ الْاِمَامَ یَقُوْلُ آمِیْنْ  کہ امام بھی آمین کہتا ہے ، اس سے بھی معلوم ہوا کہ آمین بالجہر نہ تھی۔ اگر جہر ہوتی تو امام کے فعل کے اظہار کی ضرورت نہ پڑتی۔ 
اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ مقتدی فاتحہ نہ پڑھے ۔ کیونکہ 
اگرمقتدی پر فاتحہ لازم ہوتا تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم فرماتے جب تم’’غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَ لاَ الضَّالِّیْنَ‘‘پڑھو تو آمین کہو۔ بلکہ یوں فرمایا کہ جب امام      وَلاَ الضَّآلِّیْنَکہے تو تم آمین کہو ۔ معلوم ہواکہ فاتحہ کاپڑھناامام پرہی لازم تھا۔ دوسری حدیث میں اور بھی تصریح فرمادی کہ اِذَا اَمَّنَ الْقَارِئ فَاَمِّنُوْا۔ جب قراء ت پڑھنے والا آمین کا ارادہ کرے تو تم بھی آمین کہو ۔ پس اگر مقتدی بھی قاری ہوتا توآپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم صرف امام کو قاری نہ فرماتے ۔   

Post a Comment

0 Comments