حدیث {۱۷} Hadees 17

حدیث {۱۷}

عَنْ وَائِلِ بْنِ حَجَرٍ قَالَ رَأَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم وَضَعَ یَمِیْنَہ‘ عَلیٰ شِمَالِہٖ فِيْ الصَّلوٰۃِ تَحْتَ السُّرَّۃِ۔ اَخْرَجَہٗ ابْنُ اَبِیْ شِیْبَۃَ الْمُصَنِف لِاِبْنِ اَبِیْ شِیْبَۃَ ۱/۳۹۰ ، تَدْرِیْبُ الرَّاوِیْ ۱/۱۸۸ آثَارُ السُّنَنِ ۱۷ 
ترجمہ : حضرت وائل بن حجر کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم  کو کہ آپ نے نماز میں دایاں ہاتھ بائیں پر ناف کے نیچے رکھا ۔ 
اس کو ابن ابی شیبہ نے روایت کیا۔ 
شیخ قاسم بن قطلوبغا حنفی نے فرمایا کہ اس کی سند جیّد ہے (شَرْحُ تِرْمِذِیْ لِاَبِیْ الطَّیِّبِ ) سندھی نے اس کے رجال کو ثقہ کہا۔ محمد مدنی نے اس کی سند کو قوی فرمایا ۔ اس حدیث پر دو اعتراض کئے جاتے ہیں ۔ 
ایک یہ کہ یہ حدیث ابن ابی شیبہ میں نہیں ۔ علامہ حیات سندھی نے اپنے رسالہ میں لکھا ہے کہ میں نے مصنف کا نسخہ دیکھا ۔ اس میں یہ حدیث ہے لیکن تَحْتَ السُّرَّۃِ  (ناف کے نیچے ) کا لفظ نہیں ۔ 
دوسرا اعتراض یہ ہے کہ اس حدیث میں علقمہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں حالانکہ انہوں نے  اپنے باپ سے سماع (1) نہیں کیا۔ 
 پہلے اعتراض کا جواب معترض نے صرف علامہ حیات سندھی کی شہادت وہ بھی عدم وِجدان(2) کی پیش کی۔ میں کہتا ہوں ممکن ہے علامہ حیات کو یہ لفظ نہ ملا ہو ۔ یا جس نسخہ میں انہوں نے دیکھا وہاں سہوِ کاتب سے رہ گیا ہو ۔ ہم اس لفظ کے موجود ہونے پر دو شہادتیں پیش کرتے ہیں ۔ وہ بھی اثبات پر کہ مثبت نافی پر مقدم ہوتا ہے ۔ حافظ قاسم بن قطلوبغا  تَخْرِیْجُ أَحَادِیْثِ الْإِخْتِیَارِ شَرْحُ الْمُخْتَارِ میں اس حدیث کو بحوالہ مصنف ابن ابی شیبہ لکھ کر فرماتے ہیں : 
ھٰذَا سَنَدٌ جَیِّدٌ وَ قَالَ الْعَلاَّمَۃُ مُحَمَّدٌ أَبُوْ الطَّیِّبِ الْمَدَنِیْ فِیْ شَرْحِ التِّرْمِذِیْ ھٰذَا حَدِیْثٌ قَوِیٌّ مِنْ حَیْثُ السَّنَدِ وَ قَالَ الشَّیْخُ عَابِدُنِالسِّنْدِھِیْ فِی الطَّوَالِعِ الْأَنْوَارِ رِجَالُہٗ ثُقَاتٌ ۔ آثار السنن ص ۷۰
یہ سندجید ہے علامہ مدنی شرح ترمذی میں فرماتے ہیں کہ یہ حدیث 
مِنْ حیث السند قوی ہے ۔ شیخ عابد سندھی طوالع الانوار میں فرماتے ہیں کہ اس کے راوی سب ثقہ ہیں ۔ دیکھئے حافظ قاسم بن قطلو بغا جو کہ علامہ ابن الہمام کے ارشد تلامذہ میں سے ہیں جو فن حدیث و فقہ میں متبحر(بہت بڑے عالم)تھے اس حدیث کو ابن ابی شیبہ کے حوالہ سے لکھ کر اس کی سند کو جید فرماتے ہیں ۔ عابد سندھی کی شہادت بھی پیش کرتے ہیں ۔ پھر بھی معترضین کو انکار ہے ۔ 
اور سنئے علامہ قاسم سندھی اپنے رسالہ فوز الکرام میں فرماتے ہیں : ۔ 
اِنَّ الْقَوْلَ یَکُوْنُ ھٰذِہِ الزِّیَادَُ غَلَطًا مَعَ جَزْمِ الشَّیْخِ قَاسِمٍ بِعَزُوْھَا اِلَی الْمُصَنِّفِ وَ مُشَاھَدَتِیْ اِیَّاھَا فِیْ نُسْخَۃٍ وَ الْحَدِیْثِ وَالْأَثَرِلاَ یَلِیْقُ بِالْإِنْصَافِ قَالَ وَ رَأَیْتُہٗ بِعَیْنِیْ فِیْ نُسْخَۃٍ صَحِیْحِۃٍ عَلَیْھَا الْأَمَارَاتُ الْمُصَحَّحَۃُ وَ قَالَ فَھٰذِہِ الزِّیَادَۃُ فِیْ اَکْثَرِ نُسُخٍ صَحِیْحَۃٌ ۔  آثار السنن ص ۷۱
کہ یہ کہنا کہ زیادت تحت السرہ غلط ہے انصاف نہیں ۔ باوجود اس کے کہ شیخ قاسم نے یقینی طور پر اس کو مصنف کی طرف منسوب کیا اور میں نے بھی اس زیادت کو ایک نسخہ میں دیکھا اور شیخ عبد القادر مفتی حدیث کے خزانہ میں جو مصنف کا نسخہ ہے اس میں بھی موجود ہے ۔ میں نے اپنی آنکھوں سے ایک صحیح نسخہ میں جس میں علامات تھیں اس زیادت کو دیکھا ۔ یہ زیادت یعنی لفظ تحت السرہ اس حدیث میں مصنف کے اکثر نسخوں میں صحیح ہے ۔ 
علامہ ظہیر احسن نیموی اپنے رسالہ درۃ الغرہ میں لکھتے ہیں کہ مدینہ 


منورہ کے قبہ محمودیہ میں جو کتب خانہ ہے اس میں مصنف کا نسخہ ہے ۔ اس میں بھی لفظ تحت السرہ اس حدیث میں موجود ہے ۔ 
اب انصاف فرمائیے کہ علامہ قاسم بن قطلوبغا نے مصنف میں اس حدیث کو بلفظ تحت السرہ دیکھا۔ پھر علامہ قاسم سندھی نے اپنے دیکھنے کی شہادت دی اور مصنف کا پتا بھی بتایا۔ پھر علامہ ظہیر احسن نیموی نے بھی دیکھا اور قُبہ محمودیہ کے کتب خانہ کا پتا بھی دیا۔ ان کی چشم دید شہادت کے بعد بھی اگر کوئی یہی کہتا جائے کہ مصنف ابن ابی شیبہ میں اس حدیث میں یہ لفظ نہیں تو اس ہٹ دھرمی کا کیا علاج ہوسکتا ہے ؟ علامہ حیات کا یہ کہنا کہ شاید کاتب کی نظر چوک گئی ہو اور اس نے نخعی کے اثر کا یہ لفظ حدیث مرفوع میں لکھ دیا ہو ہم کہتے ہیں کہ یہ ہوسکتا ہے اگر صرف ایک ہی نسخہ میں یہ لفظ ہو ۔ جب اس لفظ کا اس حدیث میں مصنف کے اکثر نسخوں میں پایا جانا ثابت ہے تو یہ احتمال صحیح نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ سب کاتبوں کا اسی حدیث میں آکر چوک جانا مانا نہیں جاسکتا۔ ہاں ! یہ ہوسکتا ہے کہ جس نسخہ کو علامہ حیات نے دیکھا ہو اس میں کاتب کے سہو سے یہ لفظ رہ گیا ہو۔ 
دوسرے اعتراض کا جواب : علقمہ نے اپنے باپ سے سنا ہے اور یہی صحیح ہے ۔ علقمہ کے بھائی عبد الجبار نے اپنے باپ سے نہیں سنا وہ اپنے باپ کی موت کے بعد پیدا ہوئے ۔ 
ترمذی ابواب الحدود ص ۱۷۵ میں لکھتے ہیں : ۔ 
 سَمِعْتُ مُحَمَّدًا یَّقُوْلُ عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ وَائِلِ بْنِ حَجَرٍ لَمْ یَسْمَعْ مِنْ اَبِیْہِ وَ لاَ اَدْرَکَہُ یُقَالُ اِنَّہٗ وُلِدَ بَعْدَ مَوْتِ اَبِیْہِ بِاَشْھُرٍ ۔ 
کہ میں نے امام بخاری سے سنا وہ فرماتے تھے کہ عبد الجبار بن وائل نے اپنے باپ سے نہیں سنا اورنہ ان کو پایا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ باپ کی موت کے کئی ماہ بعد پیدا ہوئے۔ 
پھر چند سطر آگے صاف تصریح کرتے ہیں کہ : 
عَلْقَمَۃُ بْنُ وَائِلِ بْنِ حَجَرٍ سَمِعَ عَنْ اَبِِیْہِ وَ ھُوَ اَکْبَرُ مِنْ عَبْدِ الْجَبَّارِ بْنِ وَائِلٍ لَمْ یَسْمَعْ عَنْ اَبِیْہِ۔  
یعنی علقمہ نے اپنے باپ سے سنا ہے وہ عبدالجبار سے بڑے ہیں ۔ عبد الجبار نے اپنے باپ سے نہیں سنا۔ 
نسائی ص ۱۰۵ باب رَفْعُ الْیَدَیْنِ عِنْدَ الرَّفْعِ مِنَ الرُّکُوْعِ میں ایک حدیث ہے جس میں علقمہ کہتے ہیں ۔ حَدَّثَنِیْ اَبِیْ۔ اسی طرح بخاری کے جز ء رفع یدین ص ۹ میں علقمہ حَدَّثَنِیْ اَبِیْ  کہتے ہیں ۔ جس سے معلوم ہوا کہ علقمہ کو اپنے باپ سے سماع حاصل ہے۔ کیونکہ تحدیث(1) اکثر اہل حدیث کے نزدیک سماع پر دال ہے ۔ اسی طرح صحیح مسلم ص ۱۷۳ ، ج اول اور ص ۶۱ میں علقمہ اپنے باپ سے تحدیث کرتے ہیں ۔ اگرحدیث علقمہ کی اپنے 
باپ سے مرسل ہوتی تو مسلم اس کو صحیح میں روایت نہ کرتے۔ 
شیخ عبد الحی لکھنوی القول الجازم ص ۱۸ میں بحوالہ انساب سمعانی لکھتے ہیں : -
اَبُوْ مُحَمَّدٍ عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنِِ وَائِلٍ بْنِ حَجَرِ نِ الْکَنْدِیْ یَرْوِیْ عَنْ اُمِّہٖ عَنْ اَبِیْہِ وَھُوَ اَخُوْ عَلْقَمَۃَ وَ مَنْ زَعَمَ اَنَّہٗ سَمِعَ اَبَاہٗ فَقَدْ وَھَمَ لِاَنَّ وَائِلَ بْنَ حَجَرٍ مَاتَ وَ اُمُّہٗ حَامِلٌ بِہٖ وَ وَضَعَتْہٗ  بَعْدَہٗ بِسِتَّۃِ اَشْھُرٍ اِنْتَھٰی۔ 
یعنی عبد الجبار بن وائل اپنی ماں سے روایت کرتے ہیں ۔ وہ اس کے باپ سے اور وہ علقمہ کے بھائی ہیں ۔ جس نے یہ گمان کیا کہ عبدالجبار نے اپنے باپ سے سنا ہے اس نے وہم کیا ۔ کیونکہ وائل بن حجر فوت ہوئے تو عبد الجبار ماں کے پیٹ میں تھے ۔ 
وہ والد کی وفات کے چھ ماہ بعد پیدا ہوئے۔ 
اور بحوالہ الغابہ لکھا ہے :  قِیْلَ اِنَّ عَبْدَ الْجَبَّارِ لَمْ یَسْمَعْ مِنْ اَبِیْہِکہ عبد الجبار نے اپنے باپ سے نہیں سنا۔ کہا ابن عبد البر نے استیعاب میں وائل کے ترجمہ میں  رَوَی عَنْہُ کَلِیْبُ بْن شَھَابٍ وَ اِبْنَاہُ عَبْدُ الْجَبَّارِ وَ عَلْقَمَۃُ وَلَمْ یَسْمَعْ عَبْدُ الْجَبَّارِ مِنْ اَبِیْہِ فِیْمَا یَقُوْلُوْنَ بَیْنَھُمَا عَلْقَمَۃُ بْنُ وَائِلٍ اِنْتَہٰی۔    
یعنی وائل سے کَلِیْب بِنْ شَہَابْ نے اور وائل کے دونوں فرزندوں 
نے روایت کیا ہے ۔ عبد الجبار نے اپنے باپ سے نہیں سنا ۔ ان دونوں کے درمیان علقمہ بن وائل (واسطہ ) ہیں ۔ معلوم ہوا کہ جس نے اپنے باپ سے نہیں سنا وہ عبد الجبار ہے ۔ علقمہ نے اپنے باپ سے سنا ہے ۔ ابن حجر نے بیشک تقریب میں لکھا ہے کہ علقمہ نے اپنے باپ سے نہیں سنا لیکن ہم ابن حجر سے ہی دکھاتے ہیں کہ انہوں نے تلخیص الحبیر کے ص ۹۷میں اور ص ۱۰۴ میں لکھا ہے اَنَّ عَبْدَ الْجَبَّارِ لَمْ یَسْمَعْ مِنْ اَبِیْہِکہ عبدالجبار نے اپنے باپ سے نہیں سنا۔ 
بلوغ المرام کے صفۃ الصلوٰۃ کے باب میں حدیث وائل ہے جس میں حضور عَلَيْهِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے دائیں بائیں سلام پھیرنے کا ذکر ہے ۔ اخیر میں لکھتے ہیں رَوَاہُ اَبُوْ دَاؤُدَ بِاَسْنَادٍ صَحِیْحٍ۔ اس سند میں علقمہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں ۔ اگر ابن حجر کے نزدیک علقمہ نے اپنے باپ سے نہ سنا ہوتا تو اس حدیث کو ابن حجر صحیح نہ کہتے۔ معلوم ہوا کہ ابن حجر کے نزدیک صحیح اور مختار یہی ہے کہ علقمہ نے اپنے باپ سے سناہے ۔ 
اب ہم نہیں سمجھتے کہ غیر مقلدین کے پاس اس حدیث پر عمل نہ کرنے کی کونسی وجہ وجیہ(1) ہے ۔ اگر وہ عمل نہیں کرتے تو نہ کریں ۔ مگر حضراتِ احناف کو تو اس پر عمل نہ کرنے کی ترغیب نہ دیں ۔ 
ابوداؤد میں حضرت سیدنا علی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا : 

اَلسُّنَّۃُ وَضْعُ الْکَفِّ تَحْتَ السُّرَّۃِ
ترجمہ : کہ ہتھیلی کا ہتھیلی پرناف کے نیچے رکھنا سنت ہے ۔
اس حدیث کو ابوداؤد ، ابن ابی شیبہ ، احمد ، دارقطنی اور بیہقی نے روایت کیا ہے ۔ (1) 
اصول حدیث میں یہ مسئلہ مُسَلَّم ہے کہ صحابی جب کسی امر کو سنت کہے تو اس سے سنت نبوی مرادہوتی ہے ۔ ابو داؤد نے اس حدیث پر سکو ت کیا ۔ اور جس حدیث پر ابوداؤد سکوت کریں وہ ان کے نزدیک قابل حجت ہوتی ہے ۔ 
امام نووی اذکار ص ۸ میں لکھتے ہیں : 
مَا رَوَاہُ اَبُوْ دَاؤُدَ فِیْ سُنَنِہِ وَ لَمْ یَذْکُرْ ضُعْفَہٗ فَھُوَ عِنْدَہٗ صَحِیْحٌ او حَسَنٌ وَ کِلاَھُمَا یُحْتَجُّ بِہِ فِیْ الْاَحْکَامِ۔ 
یعنی ابوداؤد جس حدیث کو اپنے سنن میں روایت کریں اور اس کا ضعف بیان نہ کریں وہ ان کے نزدیک صحیح یا حسن ہوتی ہے ۔ او ر احکام میں یہ دونوں قابل حجت ہیں ۔ 
اس حدیث کے راوی عبدالرحمن بن اسحق پر جتنی جروح  (2) ہیں سب مبہم اور غیر مفسر ہیں (3)۔ اصول حدیث میں یہ امر مُسَلَّم  ہے کہ جرح مبہم 
مقبول نہیں ۔ دیکھو نووی شرح مسلم ص ۸والرفع والتکمیل ص۸۔ 
حدیث وائل بن حجر جس میں ہاتھوں کا باندھنا آیا ہے ابن خزیمہ کے حوالہ سے بعض محدثین نے اس حدیث کو نقل کیا ہے ۔ کسی معتبر کتاب میں مجھے اس کی سند نہیں ملی۔ حافظ ابن قیم اعلام الموقعین کے ص ۶ ج ۲ میں اس حدیث کا ذکر کرکے فرماتے ہیں لَمْ یَقُلْ عَلَی صَدْرِہِ غَیْرُ مُؤَمَّلِ بْنِ اِسْمَاعِیْلَ۔ کہ مؤمل بن اسماعیل کے سوا اس حدیث میں  عَلَی صَدْرِہٖ  کسی نے نہیں کہا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن خزیمہ کی سند میں بھی مؤمل بن اسماعیل ضرور ہے اور وہ ضعیف ہے ۔ ابوحاتم نے اس کو کثیر الخطا کہا ، امام بخاری نے منکر الحدیث۔ ابوزرعہ کہتے ہیں کہ اس کی حدیث میں خطابہت ہے(میزان) علامہ مزی نے تہذیب الکمال میں ، حافظ ابن حجر نے تہذیب التہذیب میں لکھا ہے : 
قَالَ غَیْرُہٗ دُفِنَ کُتُبُہٗ وَ کَانَ یُحَدِّثُ مِنْ حِفْظِہِ فَکَثُرَ خَطَائُہٗکہ اس کی کتابیں دفن کی گئیں ۔ وہ اپنے حفظ سے حدیث بیان کرتے تھے اس لئے ان سے بہت خطا واقع ہوئی۔ (1)
تہذیب التہذیب میں سلیمان بن حرب کا قول نقل کیا ہے : 
وَِ قَدْ یَجِبُ عَلَی اَھْلِِ الْعِلْمِ اَن یَّقِفُوْا عَنْ حَدِیْثِہِ فَاِنَّہٗ یَرْوِیْ الْمَنَاکِیْرَ عَنْ شُیُوْخِہِ وَ ھٰذَا اَشَدُّ فَلَوْ کَانَتْ ھٰذِہِ الْمَنَاکِیْرُ عَنِ الضُّعَفَائِ لٰکِنَّا نَجْعَلُ لَہٗ عُذْرًا۔ (2)
یعنی اہل علم پر واجب ہے کہ اس کی حدیث سے بچتے رہیں کیونکہ یہ شخص ثقات سے منکرات روایت کرتا ہے اور یہ بہت برا ہے ۔ اگر ضعفاء سے مناکیر روایات کرتا تو اس کو معذور سمجھتے ۔ (اور ضعفاء پر منکرات محمول کرتے )۔ 
حافظ ابن حجر فتح الباری جز ۲۱ ص ۹۶ میں فرماتے ہیں : 
وَ کَذٰلِکَ مُؤَمَّلُ بْنُ اِسْمَاعِیْلَ فِیْ حَدِیْثِہٖ عَنِ الثَّوْرِیْ ضُعَفٌکہ مؤمل بن اسماعیل جو ثوری سے روایت کرے اس میں ضعف ہے۔ اور یہ حدیث اس نے ثوری سے ہی روایت کی ہے ۔ چنانچہ بیہقی نے سنن کبریٰ میں اس حدیث کو بروایت مؤمل بن اسماعیل عن الثوری اخراج کیا ہے۔ اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ حدیث وائل بن حجر جو کہ ابن خزیمہ نے روایت کی ہے صحیح نہیں ہے ۔ 
اسی طرح حدیث قبیصہ بن ہلب جس کو امام احمد نے مسند میں روایت کیا ہے صحیح نہیں ۔ اس میں سماک بن حرب ہے جس کو شعبہ و ابن مبارک وغیرہما نے ضعیف کہا (اکما ل) ابن مبارک نے سفیان سے نقل کیا کہ ضعیف ہے۔ امام احمد اس کو مضطرب الحدیث کہتے ہیں ۔ صالح جزرہ ضعیف کہتا ہے ۔ نسائی کہتے ہیں کہ جب وہ منفرد ہو حجت نہیں (میزان ) تو ثابت ہوا کہ سینہ پر ہاتھ باندھنے کی کوئی حدیث صحیح نہیں ۔ وَ ھٰذَا ھُوَ الْحَقُّ۔

________________________________
1 -   السنن ابو داود ۱ / ۲۰۱ ، المصنف ابن ابی شیبہ۱ / ۳۴۳ ، المسند لامام احمد ۱ / ۱۱۰ ، الدارقطنی ۱ / ۲۸۶ ، البیہقی۲ / ۳۱ ۔ 
2 -    جرح کی جمع ہے مراد یہ ہے کہ طعن کرنے والا کسی راوی کے بارے میں کہے کہ فلاں اکذب الناس ہے یا کہے کہ فلاں روایت کرنے میں محتاط نہیں یا فلاں کی یاداشت کمزور ہے وغیرہ۔ 
3 -    ایسی جرح کہ جسمیں جرح کا سبب بیا ن نہ کیا جائے۔ 





Post a Comment

0 Comments