حدیث {۱۵} Hadees 15

حدیث {۱۵}

عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ اَبِيْ لَیْلٰی قَالَ حَدَّثَنَا اَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم اَنَّ عَبْدَ اﷲِ بْنَ زَیْدِنِ الْاَنْصَارِيْ جَائَ إِلَی النَّبِیِِّ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم فَقَالَ یَارَسُوْلَ اﷲِ رَاَیْتُ فِي الْمَنَامِ کَانَ رَجُلاً قَامَ وَعَلَیْہِ بُرْدَانِ اَخْضَرَانِ فَقَامَ عَلٰی حَائِطٍ فَأَذَّنَ مَثْنیٰ مَثْنیٰ وَ اَقَامَ مَثْنیٰ مَثْنیٰ۔ رَوَاہٗ ابْنِ اَبِیْ شِیْبَۃٍ فِی الْمصْنَفِ وَ الْبَیْھَقِیْ فِی سُنَنِہٖ(2)
ترجمہ : - حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے اصحاب نے ہمیں حدیث بیان کی کہ عبد اﷲ بن زید انصاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ 
حضورعَلَيْهِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے پاس آئے اور عرض کی کہ یارسول اﷲ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم میں نے خواب میں دیکھا ہے گویا ایک شخص کھڑا ہے اور اس پر دو سبز کپڑے ہیں ۔ وہ دیوار پر کھڑا ہوا ۔ اس نے دو دو مرتبہ اذان دی اور دو دو مرتبہ اقامت کہی۔ 
اس کو ابن ابی شیبہ نے مصنف میں اور بیہقی نے سنن میں روایت کیا۔  جوھر النقی میں ہے کہ ابن حزم نے فرمایا کہ اس حدیث کی سند نہایت صحیح ہے ۔ 
یہ حدیث اذان میں اصل ہے ۔ اس میں ترجیع (1)نہیں ۔ معلوم ہوا کہ ترجیع سنت نہیں ۔ قَالَ ابْنُ الْجَوْزِیْ۔ حضرت سیدنا بلال رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  جو کہ سرور عالم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے سامنے اذان دیا کرتے تھے ۔ اگر ترجیع مسنون ہوتی تو حضور عَلَيْهِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام  حضرت سیدنا بلال رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو امر فرماتے اورحضرت سیدنا بلال رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کم سے کم ایک بار تو ترجیع کے ساتھ اذان دیتے ۔ 
ابو محذورہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ (2) جس کی اذان میں ترجیع آئی ہے وہ دربارہ تعلیم 

ہے ۔ کہ ابو محذورہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنی آواز کو اتنا لمبانہ کیاکہ جتنا حضور عَلَيْهِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام  کا ارادہ تھا۔ اس لئے فرمایا کہ
اِرْجِعْ وَ أمْدُدْ مِنْ صَوْتِکَ ۔
 پھر کہہ اور آواز بلندکر ۔
علاوہ اس کے خود ابو محذورہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  سے اذان بلا ترجیع آئی ہے۔ امام طحاوی نے عبد العزیز بن رفیع سے روایت کیا ہے ۔ اس نے کہا میں نے سنا   ابو محذورہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکو ، وہ دو دوبار آذان اور دو دو بار اقامت کہتے تھے۔ جو ہر النقی میں اس حدیث کو صحیح کہا ہے ۔ اور یہی مذہب ہے امام اعظم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکا ۔ 
وہ جو بعض روایات میں آیا ہے کہ تخفض بھا صوتک ثم ترفع صوتک (1)  وہ ضعیف ہے ۔ اس میں حارث بن عبید ابو قدامہ راوی ہے جس کو امام احمد مضطرب الحدیث اور ابن معین ضعیف کہتے ہیں ۔ نسائی نے بھی کہا ہے کہ وہ قوی نہیں ۔ 

________________________________
1 -   پہلے پست اورپھر بلند آواز سے شھادتین (یعنی اَشْھَدُ ۔ ۔ والے کلمات) دہرانا۔ 
2 -   حافظ ابو عمر ابن عبد البر لکھتے ہیں : حضرت ابو محذورہ قرشی ص کے نام میں کافی اختلاف ہے ، بہر حال اکثریت کی تحقیق یہ ہے کہ ان کا نام سمرہ بن سعیدہے۔ ۸ھ میں جب رسول اﷲ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم غزوئہ حنین سے واپس ہورہے تھے ، اسی اثناء میں حضرت ابو محذورہ اپنے دس مشرک ساتھیوں کے ساتھ گزر رہے تھے ، راستے میں رسول اﷲ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے مؤذن کی آواز سنی ، حضرت ابو محذورہ نے اذان کی نقل اتارنا شروع کردی ، حضرت ابو محذورہ بلند آواز اور خوش الحان تھے اور بطور تمسخر اذان کی نقل اتار رہے تھے ، ان کی قسمت نے یاوری کی اور سرکار ِ ابد قرار ا نے ان کی آواز سن لی ان کو بلایا اور ان کے باقی ساتھیوں کو واپس کردیا ، رسول اﷲ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے فرمایا اب آذان دو ، آپ آذان کا ایک ایک کلمہ پڑھتے اور ان سے پڑھواتے ۔ ابو محذورہ کہتے ہیں کہ مجھے اس وقت حضور سے زیادہ کوئی ناپسند نہ تھا۔ اورنہ ہی حضور کا حکم ماننا پسند تھا ، تاہم میں نے حضور کے کہنے سے آذان دی ، اذان کے بعد سرکار صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے مجھے ایک تھیلی دی جس میں کچھ چاندی تھی ، پھر اپنا دستِ مبارک میری پیشانی پر پھیرا ، اور ناف تک لے گئے ، ہاتھ کا پھیرنا کیا تھا میری قسمت پھر گئی ، میرے دل میں رسول اﷲ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے خلاف جس قدر کینہ وبغُض تھا سب جاتا رہا ، آپ انے مجھے برکت کی دعا د ی اور میں آپ ا کا گرویدہ ہوکر مسلمان ہوگیا۔ (الاستیعاب علی ہامش الاصابہ ۴ ، ۱۷۷ )
ع نگاہِ نبی  ا  میں وہ تاثیر دیکھی بدلتی کروڑوں کی تقدیر دیکھی



Post a Comment

0 Comments