حدیث {۲۴} رفع یدین Hadees Number 23

حدیث {۲۴}
رفع یدین 





عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَ قَالَ خَرَجَ عَلَیْنَا رَسُولُ اﷲِ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم فَقَالَ مَالِیْ اَرَاکُمْ رَافِعِیْ اَیْدِیَکُمْ کَأَنَّھَا اَذْنَابُ خَیْلٍِ شَمْسٍ اُسْکُنُوْا فِی الصَّلوٰۃِ۔ رَوَاہٗ مُسْلِمٌ (1)
ترجمہ : -حضرت جابر بن سمرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہا انہوں نے نکلے ہم پر رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم اور فرمایا کیا ہے مجھے کہ میں تمہیں رفع یدین کرتا ہوا دیکھتا ہوں گویا کہ سرکش گھوڑوں کی دم ہیں ۔ نماز میں آرام کیا کرو ۔ 
اس کو مسلم نے روایت کیا۔ اس حدیث میں ظاہر ہے کہ حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے حضراتِ صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کو نماز میں رفع یدین (2) کرتے ہوئے دیکھا اور منع فرمایا ۔ جس سے ثابت ہوا کہ رفع یدین سنت نہیں بلکہ منسوخ (3) ہے ۔ یہ جو بعض کہتے ہیں کہ اس حدیث میں بوقت سلام رفع یدین کرنے کی ممانعت ہے صحیح نہیں ۔ وہ حدیث جس میں بوقت سلام اشارہ کرنے کی ممانعت ہے دوسری ہے ۔ ان دونوں حدیثوں میں فرق ہے ۔ اس حدیث میں رفع یدین کا ذکر ہے 
دوسری میں رفع یدین کا ذکر نہیں۔ بلکہ اِیْمَائٌ بِالْیَدَیْنِ کا ذکر ہے ۔ کسی روایت میں تؤمون ہے کسی میں تشیرون ۔ نیز اس حدیث میں اُسْکُنُوْا فِی الصَّلوٰۃِ ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ رفع یدین نماز میں تھا جس کی ممانعت ہوئی اور سکون کا حکم فرمایا ۔ دوسری حدیث میں یہ لفظ ہی نہیں کیونکہ سلام نماز کا مظروف نہیں (1)۔ تو اشارہ بالیدین بوقت سلام بھی مظروف نماز نہیں ۔ اور اس حدیث میں حضورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکے ساتھ نمازپڑھنے کا ذکر نہیں اور دوسری حدیث میں حضورعَلَيْهِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامکے ساتھ نماز پڑھنے کا ذکر ہے ۔ معلوم ہوا کہ یہ دونوں حدیثیں الگ الگ ہیں ۔ یہ حدیث رفع یدین کی ممانعت میں ہے۔ دوسری بوقت سلام اشارہ بالیدین کی ممانعت میں ۔ ان دونوں حدیثوں کو ایک سمجھنا باوجود اس اختلاف کے جو ہم نے ذکر کیا ہے خوش فہمی ہے۔ 
اعتراض : 
عیدین اور وتروں کے لئے کچھ ایسی خصوصیات ہیں جو کہ دو سری نمازوں میں نہیں ۔ مثلاً عیدین کے لئے شہر کا شرط ہونا۔ اور شہر سے باہر نکل کر عید پڑھنا خطبہ نماز عید کے بعد پڑھنا۔ وتر کا طاق ہونا۔ دعا قنوت پڑھنا ۔ تو اسی طرح رفع یدین جو عیدین یا وتروں میں کیا جاتا ہے ۔ وہ بھی ان دونوں نمازوں کی خصوصیات سے ہے ۔ 
علاوہ اس کے جس نماز کو حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے دیکھ کر صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کو رفع یدین 
سے منع فرمایا وہ نماز عید نہ تھی اگر عید ہوتی تو حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم خود امام ہوتے اور نماز وتر بھی نہ تھی۔ کیونکہ وتروں میں جماعت اور ان کا مسجد میں ادا کرنا آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی اور صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کی عادات مستمرہ (1) سے نہ تھا۔ بلکہ گھروں میں اکیلے اکیلے پڑھنے کی عادت تھی۔ تو معلوم ہوا کہ وہ بھی رَفْعُ یَدَیْنِ عِنْدَ الرُّکُوْعِ والرَّفْعِ عَنْہُ (2) تھا جو حضور  کے اس فرمان مبارک کے بعد منسوخ ہوا۔ 

Post a Comment

0 Comments