حدیث {۷} Hadees 7

حدیث {۷}

عَنْ جَابِرٍ بْنِ عَبْدِ اﷲِ قَالَ سَأَلَ رَجُلٌ رَسُوْلَ اﷲِ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم عَنْ وَقْتِ الصَّلوٰۃِ فَلَمَّا دَلَکَتِ الشَّمْسُ أَذََّنَ بِلاَلُ الظُّھْرَ فَأَمَرَہ‘ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم فَأَقَامَ الصَّلوٰۃَ فَصَلّٰی ثُمَّ أَذَّنَ لِلْعَصْرِ 
حِیْنَ ظَنَنَّا أَنَّ ظِلَّ الرَّجُلِ أَطْوَلُ منْہُ فَأَمَرَہُ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم فَأَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَصَلَّی ثُمَّ اَذَّنَ لِلْمَغْرِبِ حِیْنَ غَابَتِ الشَّمْسُ فَأَمَرَہُ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم فَأَقَامَ الصَّلوٰۃَ وَ صَلَّی ثُمَّ اَذَّنَ لِلْعِشَآئِ حِیْنَ ذَھَبَ بَیَاضُ النَّھَارِ وَ ھُوَ الشَّفَقُ ثُمَّ اَمَرَہُ فَأَقَامَ الصَّلوٰۃَ وَ صَلَّی ثُمَّ اَذَّنَ لِلْفَجْرِ فَأَمَرَہ‘ فَأَقَامَ الصَّلوٰۃَ وَصَلَّی ثُمَّ اَذَّنَ بِلاَلُ الْغَدَ لِلظُّھْرِ حِیْنَ دَلَکَتِ الشَّمْسُ فَأَخَّرَھَا رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم حَتّٰی صَارَ ظِلُّ کُلِّ شَیْیئٍ مِّثْلَیْہِ فَأَمَرَہ‘ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم فَأَقَامَ وَ صَلَّی ثُمَّ أَذَّنَ لِلْمَغْرِبِ حِیْنَ غَرَبَتِ الشَّمْسُ فَأَخَّرَھَا رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم حَتّٰی کَادَ یَغِیْبُ بِیَاضُ النَّھَارِ وَھُوَ الشَّفَقُ فِیْمَا یُرٰی ثُمَّ اَمَرَہ‘ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم فَأَقَامَ الصَّلوٰۃَ وَصَلَّی ثُمَّ أَذَّنَ لِلْعِشَائِ حِیْنَ غَابَ الشَّفَقُ فَنُمْنَا ثُمَّ قُمْنَا مِرَارًا ثُمَّ خَرَجَ إِلَیْنَا رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم فَقَالَ مَا اَحْدٌ مِّنَ النَّاسِ یَنْتَظِرُ ھٰذِہِ الصَّلوٰۃَ غَیْرَکُمْ فَاِنَّکُمْ فِيْ صَلوٰۃٍ مَاانْتَظَرْتُمُوْھَا وَلَوْلَا اَنْ اَشُقَّ عَلیٰ اُمَّتِي لَاَمَرْتُ بِتَأخِیْرِ ھٰذِہِ الصَّلوٰۃِ إِلَی نِصْفِ الَّیْلِ اَوْ اَقْرَبَ مِنَ اللَّیْلِ ثُمَّ اَذَّنَ لِلْفَجْرِ فَأَخَّرَھَا حَتّٰی کَادَتِ الشَّمْسُ اَنْ تَطْلَعَ فَأَمَرَہ‘ فَأَقَامَ الصَّلوٰۃَ فَصَلّٰی ثُمَّ قَالَ ، اَلْوَقْتُ فِیْمَا بَیْنَ ھٰذَیْنِِ ۔  رَوَاہٗ الطَّبْرَانِِي فِی الْاَوْسَطِ وَ اَسْنَادُہٗ حَسَنٌ مَجْمَعُ الزَّوَائِدِ۔ 
ترجمہ : -حضرتِ جابر بن عبد اﷲ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اﷲ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم سے نماز کے اوقات کے متعلق سوال کیا۔ تو جب آفتاب ڈھل گیا تو بلال رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  نے ظہر کی آذان دی اس کے بعد آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے حکم دیا تو اس نے تکبیر کہی تو آپ نے نماز پڑھی اس نے عصر کی آذان اس وقت کہی جب کہ ہم نے سمجھا کہ آدمی کاسایہ اس سے بڑھ گیا ہے ۔ اس کے بعد آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے حکم دیا تو انہوں نے تکبیر کہی تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے نماز پڑھی پھر نماز مغرب کی آذان اس وقت دی جبکہ آفتاب غروب ہوگیا۔ اس کے بعد آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے اسے حکم دیا تو اس نے تکبیر کہی تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے نماز مغرب پڑھی ۔ پھر عشاء کی آذان اس وقت دی جبکہ دن کی سفیدی یعنی شفق جاتی رہی تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے حکم دیا۔ اس نے تکبیر کہی تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے نماز عشاء پڑھی پھر فجر کی آذان دی اس کے بعد آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے حکم دیا تو انہوں نے تکبیر کہی تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے نماز پڑھی پھر اگلے دن بلال  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  نے ظہر کی آذان اس وقت دی جبکہ آفتاب ڈھل گیا۔ تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے یہاں تک تاخیر کی کہ ہر شے کا سایہ اس کے برابر ہوگیا ۔ اس کے بعد آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے حکم دیاتو اس نے تکبیر کہی تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے نماز پڑھ لی۔ پھر اس نے عصر کی آذان دی تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے یہاں تک تاخیر کی کہ ہر شے کا سایہ اس کے دو مثل یعنی دو گنا ہوگیا۔ تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے امر کیا تو اس نے تکبیر کہی تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے نماز پڑھ لی۔ پھر اس نے مغرب کی آذان اس وقت دی جبکہ سورج غروب ہوگیا تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے یہاں تک تاخیر فرمائی کہ دن کی سفیدی غائب 
ہونے کے قریب ہوگئی اور وہ شفق ہے۔ پھر آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے ان کو حکم دیا تو انہوں نے تکبیر کہی تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے نماز پڑھی پھر عشاء کی آذان اس وقت دی جب شفق یعنی دن کی سفیدی غائب ہوگئی پھر ہم سوگئے پھر جاگے ۔ کئی بار ایسا ہوا۔ پھر رسول اﷲ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ تمہارے سوا کوئی آدمی اس نماز کا انتظار نہیں کررہا۔ پس تم نماز میں ہی ہو جب تک نماز کے انتظار میں رہو۔ اگر یہ بات نہ ہوتی کہ میں تاخیر کا حکم کرکے اپنی امت کو مشقت میں ڈال دونگا تو اس نماز کو نصف شب یا قریب نصف شب تک تاخیر کا حکم دیتا ۔ پھر انہوں نے فجر کی آذان دی تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے یہاں تک تاخیر کی کہ آفتاب قریب طلوع تھا۔ تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے امر فرمایا تو انہوں نے تکبیر کہی تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے نماز فجر پڑھی ۔ پھر فرمایا کہ وقت ان دونوں وقتوں کے درمیان ہے ۔ 
اس کو طبرانی نے اوسط میں روایت کیا ۔ (1)
اس سے معلوم ہوا کہ شفق سے مراد وہ سفیدی ہے جو سرخی کے بعد ہوتی ہے اور یہ امر متفق علیہ ہے کہ غروب شفق تک مغرب کاوقت رہتا ہے ۔ اور بعد غروب شفق عشاء کا وقت شروع ہوجاتا ہے ۔ اور شفق سے مراد سفیدی ہے۔ جیسا کہ اس حدیث میں تصریح ہے ۔ تومعلوم ہوا کہ سفیدی تک مغرب کا وقت رہتا ہے ۔ سفیدی دور ہو جائے پھر عشاء کا وقت شروع ہوجاتا ہے ۔ یہی مذہب ہے امام ابو حنیفہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکا ۔ رہی یہ بات کہ اس حدیث سے معلوم ہوتا 
ہے کہ عصر کا وقت مثلین سے پہلے ہوجاتا ہے ۔ اس کا جواب حدیث چہارم میں گزرا ۔  فَلاَ نُعِیْدُہٗ ۔ 
اسی کی تائید میں وہ حدیث ہے (1)جو کہ امام ترمذی نے حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت کی۔ کہا حضرت ابوہریرہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے کہ نماز کے لئے اول اور آخر ہے نماز ظہر کا اول زوال شمس کے وقت ہے ۔ اور اس کا آخر(2) جبکہ عصر کا وقت آجائے۔ اور وقت عصر کا اول جبکہ اسکا وقت ہوجائے اور اس کا آخری وقت جبکہ سورج زرد ہو جائے (یعنی وقت مستحب سورج کی زردی تک ہے ) او ر مغرب کا اول غروب شمس کے وقت ہے اور اس کا آخری وقت شفق کے غائب ہونے کے وقت ہے اور عشاء کا آخری (مستحب ) وقت جب کہ آدھی رات ہوجائے  ۔ اور فجر کا اول وقت طلوع فجر اور اس کا آخری وقت طلوع شمس تک ہے ۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عشاء کا اول وقت اس وقت شروع ہوتا ہے جب کہ سفیدی غائب ہوجائے کیونکہ افق اسی وقت غائب ہوتی ہے جب سپیدی غائب ہو ۔ اور یہ امر متفق علیہ ہے کہ مغرب اور عشاء کے درمیان فصل نہیں ۔ تو ثابت ہوا کہ سپیدی تک مغرب کی نماز کا وقت ہے۔ 
اسی طرح ابوداؤد کی حدیث(3) میں آیا ہے کہ رسول کریم  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم 

عشاء کی نماز اس وقت پڑھتے تھے جب کہ افق ( کنارئہ آسمان ) سیاہ ہوجاتا تھا۔ تو افق کا سیاہ ہونا سفیدی کے زائل ہونے کے بعد ہوتا ہے ۔ اس سے بھی معلوم ہوا کہ شفق سے مراد سپیدی ہے ۔ یہی مذہب ہے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق و معاذ بن جبل و عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاکا۔ اور عمر بن عبد العزیز اور اوزاعی و مزنی و ابن المنذ روخطابی علیہم الرحمۃ نے ایسا ہی فرمایا ہے ۔ مبرد اور ثعلب نے اسی کو پسند کیا ہے۔ وَ اللّٰہُ تَعَالیٰ اَعْلَمُ۔ 

________________________________
1 -   مجمع الزوائد ۱ ، ۳۰۴ ،معجم الاوسط ۷ ، ۴۰





Post a Comment

0 Comments