حدیث {۶} Hadees 6

  حدیث {۶}

عَنْ عَلِّيِ بْنِ شَیْبَانَ قَالَ قَدِمْنَا عَلیٰ رَسُوْلِ اﷲِ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم اَلْمَدِیْنَۃَ فَکَانَ یُؤَخِّرُ الْعَصْرَ مَا دَامَتِ الشَّمْسُ بَیْضَائَ نَقِیِّۃً۔ 
 رواہ أبوداؤد وسکت عنہ۔ 
ترجمہ : -حضرت علی بن شیبان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکہتے ہیں کہ ہم مدینہ شریف میں رسول کریم ، رؤف رحیم  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم  کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ عَلَيْهِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام   عصر کی نماز میں تاخیر فرماتے تھے جب تک سورج صاف اور روشن رہتا ۔ (1) 
اس کو ابوداؤد نے روایت کیا اور اس پر سکوت فرمایا۔ ابوداؤد جس حدیث پر سکوت فرماتے ہیں وہ ان کے نزدیک حسن ہوتی ہے ۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز عصر کو تاخیر سے پڑھنا مستحب ہے ۔ اور تاخیر کی حد بھی معلوم ہوگئی کہ سورج کے زرد ہونے سے پہلے پڑھے جبکہ آفتاب صاف اور روشن ہو۔ اتنی تاخیر نہ کرے کہ وقت مکروہ ہوجائے۔ اسی کی تائید میں وہ حدیث ہے جو امام احمد وترمذی نے بسند صحیح ام سلمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَاسے روایت کیا ہے ۔ وہ فرماتی ہیں کہ جناب رسول کریم  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم  نماز ظہر کو تم سے جلدی پڑھتے تھے اور تم نماز عصر جناب رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم سے جلدی پڑھتے ہو(2)۔ معلوم ہوا کہ نماز عصر میں تاخیر کرنا مستحب ہے ۔ رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کا یہی طریقہ تھا اور یہی امام اعظم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکا مذہب ہے ۔ 
عبد الرزاق اپنی مصنف میں ثوری سے وہ ابو اسحاق سے وہ عبدالرحمن بن یزید سے روایت کرتے ہیں کہ عبد اﷲ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  عصر کی نماز میں تاخیر کیا 
کرتے تھے۔ (1)
اسی طرح عبد الواحد بن نافع کہتے ہیں کہ میں مسجد مدینہعَلٰی صَاحِبِھَا الصَّلٰوۃُ وَ السَّلاَمُ میں داخل ہوا تو مؤذن نے نماز عصر کے لئے اذان دی۔ ایک بزرگ بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے مؤذن کو ملامت کی اور فرمایاکہ میرے باپ نے مجھے خبردی ہے کہ رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم  نماز عصر کی تاخیر کا حکم دیا کرتے تھے ۔ میں نے پوچھا کہ یہ بزرگ کون ہیں ۔ لوگوں نے کہا یہ  عبد اﷲ بن رافع بن خدیج ہیں ۔ اس حدیث کو دارقطنی اور بیہقی نے روایت کیا ۔ صحیح بہاری جلد ۲ ص ۳۵۹
معلوم ہوا کہ نماز عصر میں تاخیر مستحب ہے اور جن حدیثوں میں عصر کا سویرے (2) پڑھنا آیا ہے وہ ان احادیث کے منافی نہیں کیونکہ سورج کے تغیر سے پہلے عصر پڑھ لینے سے غروب تک نَحْرٌ طَبْخٌ اَکْلٌ (3) سب کچھ ہوسکتا ہے ۔ کیونکہ اہل بادیہ (4)یہ سب کا م جلدی کرلیتے ہیں ۔ 

________________________________
1 -   صحیح البخاری۳ ، ۱۱۹۰ ، ۱ ، ۱۹۹۔ 
2 -   ٹھنڈا کرنا ۔ یعنی گرمی کے جوش میں جب کچھ کمی آجائے تو اُس وقت ظہرادا کرنا۔ 


Post a Comment

0 Comments