حدیث {۳} Hadees 3

حدیث {۳}
عَنْ رَافِعِ  بْنِ خُدَیْج قَالَ :
سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صَلَّی اﷲُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ أَسْفِرُوْا بِالْفَجْرِ فَإِنَّہ‘ أَعْظَمُ لِلْأجْرِ ۔ رَوَاہٗ التِّرْمِذِیْ وَ قَالَ حَسَنٌ صَحِیْحٌ وَ اَبُوْ دَاؤُدَ وَ الدَّارِمِیْ (1)
ترجمہ : - حضرت سیدنا رافع بن خدیج  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  سے روایت ہے کہ انہوں  نے کہا کہ سنا میں نے رسول کریم رؤف رحیم  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم  کو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم  فرماتے تھے کہ نماز فجر میں اسفار کرو یعنی روشنی میں ادا کرو۔ کیونکہ اس کا روشنی میں ادا کرنااجر میں بہت بڑا ہے ۔ 
ترمذی نے اس حدیث کو حسن صحیح کہا ہے ۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز فجر کو اچھی روشنی میں پڑھنا بہت ثواب ہے ۔ اور یہی مذہب امام اعظمرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا ہے ۔ 
شیخ عبد الحق محدّث دہلوی علیہ الرحمۃ’’ اَشِعَۃُ اللَّمْعَاتِ ‘‘ص ۰ ۳۲ میں فرماتے ہیں کہ اسفار کی حد ہمارے مذہب کے مشائخ سے اس طرح منقول ہے کہ چالیس آیت یا ساٹھ یا اس سے زیادہ سو آیت تک بطریق ترتیل   قراء ت (2) پڑھ کرنماز ادا کرے ۔ اگر بالفرض بعد فراغتِ نماز کوئی سہو اس کی 

طہارت میں ظاہر ہو یا کسی وجہ سے نماز کو دہرانا پڑے تو طلوع آفتاب سے پہلے پہلے اسی طرح قراء ت مسنون کے ساتھ اس کا اعادہ  (1) ممکن ہو ۔ بخاری شریف میں حضرت سیدنا عبد اﷲ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  سے ایک روایت آئی ہے جو اس حدیث کی تائید کرتی ہے ۔ 
عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ مَا رَأَیْتُ الْنَّبِيَّ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم صَلّٰی صَلٰوۃً لِغَیْرِ مِیْقَاتِھَا إِلَّا صَلٰوتَیْنِ جَمَعَ بَیْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَائِ بِجَمْعٍِ وَصَلَّی الْفَجْرَ قَبْلَ مِیْقَاتِھَا۔  رَوَاہُ الْبُخَارِيْ وَمُسْلِمُ قَبْلَ وَقْتِھَا بِغَلْسٍ  (2)
حضرت سیدنا عبد اﷲ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول کریم  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکو کبھی نہیں دیکھا کہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے نماز کے غیر وقت میں نماز پڑھی ہو یعنی ہمیشہ حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم  نماز کو اس کے وقت میں ادا فرمایا کرتے تھے سوائے د و نمازوں کے کہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے مغرب اور عشاء کو مزدلفہ میں جمع کیا اور فجر کو اس کے وقت سے پہلے پڑھا۔ صحیح مسلم میں ’’ قَبْلَ وَقْتِہِ ‘‘ کے آگے ’’بِغَلْسٍ‘‘  کا لفظ بھی آیا ہے ۔ یعنی نمازِفجر کو اس کے وقت سے پہلے غلس  (3)  میں پڑھا۔ شارح صحیح مسلم امام نووی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِاس کی شرح میں فرماتے ہیں کہ وقت سے پہلے تو اجماعًا نماز جائز نہیں ۔ تو اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ
   آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے وقت معتاد(1)  سے پہلے پڑھی یعنی مزدلفہ میں فجر اندھیرے میں پڑھی۔ اگرچہ بعد طلوع فجر پڑھی لیکن اندھیرے میں فجر پڑھنا چونکہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم  کی عادت نہ تھی اس لئے اس روز آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے نمازِ فجر روز مرّہ کے وقت معتاد سے پہلے پڑھی۔ بخاری و مسلم کی اس حدیث سے معلوم ہوا کہ روزمرہ      آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی عادت مبارکہ فجر نماز میں اسفار کرنا تھا۔ بعض نے اسفار کا معنی ظہور فجر کیا ہے او ر یہ باطل ہے اس لئے کہ قبل ظہور تو نماز فجر جائز ہی نہیں ۔ تو ثابت ہوا کہ اسفار سے مراد تنویر ہے یعنی خوب روشنی کرنا اور غلس کے بعد ہے یعنی زوال ظلمت کے بعد اور حضورنبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کا  ’’فإِنَّہ‘ أعْظَمُ لِلْأَجْرِ ‘‘فرمانا اس بات پر دلیل ہے کہ نماز غلس میں بھی ہو جاتی ہے اور اس کا اجر ہے مگر اسفار میں زیادہ اجر ہے ۔ تو اگر اسفار سے مراد وضو حِ فجر ہو تو اس سے پہلے تو نماز ہی جائز نہیں ۔ پھر وُضُوْحِفجر میں زیادہ اجر کیسے ہوا؟ 
اس مضمون کی بہت حدیثیں آئی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ فجر کی نماز اچھی روشنی میں پڑھنا مستحب ہے اور زیادہ اجر کا باعث ہے ۔ سنن نسائی میں محمود بن لبید اپنی قوم کے چند انصار بزرگوں سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے فرمایا ’’ مَا أَسْفَرْتُمْ بِالصُّبْحِ فَإِنَّہ‘ أَعْظَمُ لِلْأَجْرِ‘‘کہ صبح کا جس قدر اسفار کروگے وہ اجر میں بڑا ہوگا (2) ۔ اس حدیث کو حافظ 
زیلعی نے صحیح کہا تو اس حدیث سے اسفار کے معنی بھی معلوم ہوگئے کہ خوب روشنی کرنا ہے اور مخالفین کی تاویلات کی بھی تردید ہوگئی ۔ 
ایک حدیث میں آیا ہے کہ رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے حضرت سیدنا بلال  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو فرمایا : 
’’یَا بِلاَلُ نَوِّرْ بِصَلٰوۃِ الصُّبْحِ حتّٰی یَبْصُرَ الْقَوْمُ مَوَاقِعَ نَبْلِھِمْ مِنَ الْاَسْفَارِ‘‘۔ 
  ترجمہ : اے بلال رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ! صبح کی نماز میں اتنی روشنی کیا کرو کہ لوگ اسفار کی وجہ سے اپنے تیروں کے گرنے کی جگہ دیکھ لیا کریں ۔ اس حدیث کو ابوداؤد و طیالسی اور ابن ابی شیبہ واسحٰق بن راہو یہ و طبرانی نے معجم میں روایت کیا۔ (صحیح بہاری جلد ۲ ص ۲۵۶) آثار السنن میں اس کی سند کو حسن کہا ہے ۔ اس حدیث سے بھی ثابت ہوا کہ فجر میں اسفار مستحب ہے ۔ تیروں کے گرنے کی جگہ اسی وقت نظر آسکتی ہے جب کہ اچھی روشنی ہو ۔ ایک حدیث میں آیا ہے ۔ 
’’مَنْ نَوَّرَ الْفَجْرَ نَوَّرَ اﷲ ُ فِیْ قَبْرِہٖ وَقَلْبِہٖ وقُبِلَ صَلوٰتُہ‘ رَوَاہٗ الدَّیْلِمِی‘‘
رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمنے فرمایا جو شخص فجر کو روشنی میں پڑھے اﷲتعالیٰ اس کی قبر اور اس کے دل کو روشن کرتا ہے اور اس کی نماز مقبول ہوجاتی ہے     (صحیح بہاری )۔ (1) 

ایک شبہ ۔ 

بعض احادیث میں آیا ہے کہ رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم فجر کی نماز غلس یعنی اندھیرے میں پڑھتے تھے۔ عورتیں نماز فجر میں حاضر ہوتی تھیں ۔ جب فارغ ہو کر گھروں میں جاتی تھیں تو بسبب اندھیرے کے پہچانی نہیں جاتی تھیں ۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ اندھیرا مسجد کے اندرونی حصہ میں ہوتا تھا نہ یہ کہ صحن میں بھی اندھیرا ہوتا تھا۔ اسفار کے وقت بھی مسجد کے اندرونی حصہ میں اندھیرا ہوا کرتا ہے ۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اتنا زیادہ اسفار نہ کرتے تھے کہ آفتاب کا طلوع قریب ہو جائے ۔ کیونکہ حدیث میں آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم  کا اسفار میں نماز فجر پڑھنا ثابت ہے ۔ چنانچہ حضرت سیدنا بیان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت سیدنا اَنَس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے عرض کیا کہ رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی نماز کے اوقات بیان فرمائیے تو انہوں نے کہا کہ ظہر کی نماز زوال آفتاب کے بعد اور عصر کی نماز تمہارے ظہر و عصر کے درمیان پڑھا کرتے تھے ۔ اور مغرب کی نماز غروب آفتا ب کے وقت اور عشاء کی نماز غروب شفق (1) کے وقت ’’ وَ یُصَلِّي الْغَدَاۃَ عِنْدَ طُلُوْعِ الْفَجْرِ حِیْنَ یَفْسَحُ الْبَصَرُ ‘‘ اور فجر کی نماز طلوع صبح کے بعد پڑھتے تھے جب کہ نگاہ کھلنے لگے یعنی دور دور کی چیزیں 

نظر آنے لگیں ۔ اس حدیث کو ابو یعلیٰ نے روایت کیا ۔ اس کی سند حسن ہے (مجمع الزوائد)۔ 
اسی طرح ایک دوسری حدیث میں حضرت بیان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ہی سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا سَمِعْتُ أَنَسًا یَقُوْلُ کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم یُصَلِّي الْصُّبْحَ حِیْنَ یَفْسَحُ الْبَصَرُ رَوَاہٗ الْاِمَامُ اَبُو مُحَمَّدِنِ الْقَاسِمِ بْنِ ثَابِتِ السَّرْخَسِیْ فِیْ کِتَابٍ غَرِیْبِ الْحَدِیْثِ۔ (1)
ترجمہ : حضرت سیدنا اَنَس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کہتے ہیں کہ رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم ایسے وقت میں نماز پڑھتے تھے کہ نگاہ دور تک پہنچ سکے ۔ (ف)ان دونوں حدیثوں سے معلوم ہوا کہ رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نماز صبح اسفار میں پڑھتے تھے ۔ 
 طبرانی میں مجاہد سے راویت ہے وہ قیس بن سائب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت کرتے ہیں :   
کَانَ النَّبِيُّ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم یُصَلِّیْ الْفَجْرَ حَتّٰی یَتَغَشَّی النُّوْرُ السَّمَائَ۔  (2)
قیس کہتے ہیں کہ رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم اس وقت فجر پڑھتے تھے جبکہ آسمان میں روشنی پھیل جاتی تھی۔ اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ فجر کی نماز 
حضورعَلَيْهِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام اسفار میں پڑھتے تھے ۔ پس یا تو احادیث فعلیہ(1)  میں تطبیق (2) کی جائیگی کہ اندھیرے سے مراد اندرونی حصہِ مسجد کا اندھیرا ہے یا یہ کہ اسفار اتنا زیادہ نہیں ہوتا تھا کہ آفتاب کا نکلنا قریب ہو جائے کمامر۔ یا غلس میں نماز پڑھنا بیان جواز کے لئے تھا یا احادیث فعلیہ میں بسبب متعارض ہونے کے کسی فریق کے لئے حجت نہ رہی اور احادیث قولیہ(3)  بلا معارض باقی رہیں ۔ تو لامحالہ احادیث قولیہ پر عمل ہوگا۔ علاوہ اس کے قول اور فعل میں جب تعارض ہو تو قول مقدم ہوتا ہے ۔ کَذَا قَالَ الشَّیْخُ عَبْدُ الْحَقُّ فِي اَشِعَۃِ الَّمْعَاتِ تو اس مسئلہ میں بھی احادیث قولیہ’’اَسْفِرُوْا بِالْفَجْرِ‘‘ اور ’’ نَوِّرْ یَا بِلاَلُ ‘‘حدیث عکس پر جوکہ فعلی ہے مقدم ہوں گی۔ 
حضرات ِصحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا : 
علاوہ اس کے صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے بھی اسفار ثابت ہے ۔ چنانچہ امام طحاوی نے بسند صحیح ابراہیم نخعی سے روایت کیا ہے ۔ انہوں نے کہا 
مَا اجْتَمَعَ اَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم عَلیٰ شَیْئٍ مَّا اجْتَمَعُوْا عَلَی الْتَّنْوِیْرِ یعنی رسول اﷲ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے اصحاب کسی بات پر اس قدر متفق نہ ہوئے جس قدر اسفار فجر پر متفق ہوئے (4) ۔ 

حضرت سیدنا ابو بکر صدیق  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ : 
 حضرت سیدنا اَنَس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ۔ 
قَالَ صَلّٰی بِنَا أَبُوْبَکْرٍ صَلوٰۃَ الْصُّبْحِ فَقَرَأَ اٰلَ عِمْرَانَ فَقَالُوْا کَادَتِ الْشَّمْسُ تَطْلَعُ قَالَ لَوْ طَلَعَتْ لَمْ تَجِدْنَا غَافِلِیْنَ رَوَاہٗ الْبَیْھَيْ فِي السُّنَنِ الْکُبْرٰی(1) ۔  صحیح بہاری ص ۲۵۶۔ 
حضرت سیدنا اَنَس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کہتے ہیں سیدنا ابو بکر صدیق  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ہمیں صبح کی نماز پڑھائی تو سورہ آل عمران پڑھی لوگوں نے (بعد فراغتِ نماز)کہا کہ آفتاب نکلنے کے قریب ہے ۔ آپ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  نے فرمایا اگر آفتاب نکل آتا تو ہمیں غافل نہ پاتا یعنی ہمیں نماز میں دیکھتا ۔ اس حدیث کو بہیقی نے سنن کبریٰ میں روایت کیا ہے۔ معلوم ہوا کہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نماز فجر اسفار میں پڑھا کرتے تھے ۔  
حضرت سیدنا عمر فاروق  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ : 
عَنْ اَبِي عُثْمَانَ النَّھْدِي قَالَ صَلَّیْتُ خَلْفَ عُمَرَ صَلٰوۃَ الْفَجْرِ فَمَا سَلَّمَ حَتّٰی ظَنَّ الرِّجَالُ ذَوُو الْعَقُوْلِ أنَّ الْشَّمْسَ طَلَعَتْ فَلَمْ یُسَلِّمْ قَالُوْ ا یَاأَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ کَادَتِ الْشَّمْسُ تَطْلَعُ قَالَ فَتَکَلَّمَ بِشَی ئٍ لَمْ اَفْھَمُہ‘ فَقُلْتُ أَیَّ شَیْئٍ 
قَالَ فَقَالُوْا لَوْ طَلَعَتِ الْشَّمسُ لَمْ تَجِدْنَا غَافِلِیْنَ۔  رَوَاہٗ الْبَیْھَقِي فِي السُّنَنِ الْکُبْرٰی۔ (1) 
حضرت ابو عثمان نہدی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سیدنا عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پیچھے نماز فجر پڑھی آپ نے سلام نہ پھیرا یہاں تک کہ عقلمند لوگوں نے ظن(گمان) کیا کہ آفتاب طلوع ہو گیا اور آپ نے سلام نہ پھیرا ۔ لوگوں نے (بعد فراغت نماز ) عرض کی کہ اے امیر المومنین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ آفتاب نکلنے کے قریب ہے ۔ حضرت ابو عثمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کہتے ہیں کہ حضرت سیدنا عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کچھ کلام کیا جو میں نہیں سمجھا تو میں نے لوگوں سے پوچھا کہ آپ نے کیا فرمایا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  فرماتے ہیں کہ اگر آفتاب نکل آتا تو ہمیں غافل نہ پاتا۔ اس کو بیہقی نے سنن کبریٰ میں روایت کیا۔ صحیح بہاری
(ف) : معلوم ہوا کہ حضرت سیدنا عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  بھی اسفار میں نماز فجر پڑھا کرتے تھے ۔ 
حضرت سیدنا علی المرتضی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ : 
عَنْ یَزِیْدِ الْاَوْدِيْ قَالَ کَانَ عَلِيُّ بْنُ اَبِیْ طَالِبٍ یُصَلِّيْ بِنَا الْفَجْرَ وَنَحْنُ نَتْرَائُ الْشَّمْسَ مَخَافَۃَ اَنْ تَکُوْنَ قَدْ طَلَعَتْ رَوَاہٗ الطَّحَاوِيْ(2)۔ 
یزید الاودی کہتے ہیں کہ حضرت سیدنا علی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  ہمیں فجر کی نماز پڑھایا 

کرتے تھے اور ہم آفتاب کو دیکھتے تھے اس ڈر سے کہ کہیں نکل نہ آیا ہو۔ معلوم ہوا کہ حضرت سیدنا علی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  بھی اچھی روشنی میں فجر پڑھا یا کرتے تھے۔ 
عبدالرزاق ابن ابی شیبہ و طحاوی نے بسند صحیح روایت کیاہے کہ حضرت علی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اپنے مؤذن کو فرماتے تھے اَسْفِرْ اَسْفِرْ یَعْنِيْ بِصَلوٰۃِ الصُّبْحِ۔  کہ اسفار کرو اسفار کرو صبح کی نماز میں ۔ (1)
حضرت سیدنا عبد اﷲ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ : 
امام طحاوی عبد الرحمان بن یزید سے روایت کرتے ہیں ۔ 
قَالَ کُنَّا نُصَلِّيْ مَعَ ابْنِ مَسْعُوْدٍ فَکَانَ یُسْفِرُ بِصَلوٰۃِ الْصُّبْحِ۔ (2)
عبدالرحمان کہتے ہیں کہ ہم ابن مسعود  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  کے ساتھ نماز پڑھتے تھے ۔ وہ نماز صبح میں اسفار کیا کرتے تھے ۔ طبرانی نے کبیر میں اس طرح روایت کیا ہے ۔ کَانَ عَبدُ اﷲِ بْنُ مَسْعُوْدٍ یُسْفِرُ بِصَلوٰۃِ الْفَجْرِ مجمع الزوائد میں اس کے سب راوی ثقہ لکھے ہیں ۔ (3)
الحاصل مذہب امام اعظم کا کہ فجر میں اسفار مستحب ہے نہایت قوی ہے ۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی اشعۃ اللّمعات میں فرماتے ہیں کہ فجر کی تاخیر اخیر وقت تک اجماعًا بلا کراہت مباح ہے اور تقلیل جماعت بھی مکرو ہ۔ اور
 لوگوں کو مشقت میں ڈالنا بھی مکروہ یعنی غلس میں فجر پڑھنا ایک تو تقلیل جماعت کا باعث ہے جو مکروہ ہے او ر دوسرا لوگوں کو مشقت میں ڈالنا ہے اور وہ بھی مکروہ ہے ۔ جیسے حضرت سیدنا معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  کو رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے طویل قرأت سے منع فرمایا ۔ اور اسفار میں نماز پڑھنا باعث کثرت جماعت اور آسانی ہے۔ علاوہ اس کے فجر کی نماز کے بعد اسی جگہ آفتاب نکلنے تک بیٹھے رہنا مستحب ہے جو اسفار میں آسان ہے لیکن غلس میں آسان نہیں ۔ وا ﷲ تعالیٰ اعلم۔ 
________________________________
1 -   شفق اس روشنی کو کہتے ہیں جو غروب آفتاب کے بعد آسمان کے غربی کنارے پر ظاہر ہوتی ہے اور یہ دو طرح کی ہے سرخ اور سفید پہلے سرخ آتی ہے پھر سفید جب سفید غروب ہوجائے تو نماز عشاء کا وقت شروع ہوجاتا ہے ۔ 



________________________________
1 -   جامع الترمذی باب ما جاء بالاسفار بالفجر۱ / ۴۰ ‘  السنن لابی داؤد ۱ / ۶۱‘ الدارمی ۱ / ۳۰۰‘۔ 
2 -   ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا



Post a Comment

0 Comments