بلند آواز سے آمین کہنا Hadees 23 Buland Aawaz Se Aameen Kehna

حدیث {۲۳}

بلند آواز سے آمین کہنا

عَنْ وَائِلِ بْنِِ حَجَرٍ أَنَّہٗ مَعَ رَسُوْلِِ اﷲِ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم فَلَمَّا بَلَغَ غَیْرِِ الْمَغْضُوْبِِ عَلَیْھِمْ وَلاَ الضَّآلِیْنَ قَالَ اٰمِیْن اَخْفٰی بِھَا صَوْتَہٗ۔  رَوَاہٗ الْحَاکِمُ وَ الطَّبْرَانِیْ وَ الدَّارُقُطْنِیْ وَ اَبُوْ یَعْلٰی وَ اَحْمَدُ (1)
ترجمہ : -حضرت وائل بن حجر سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکے ساتھ نماز پڑھی ۔ حضورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمجب’’غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَ لاَ الضَّالِّیْن‘‘کو پہنچے تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے پوشیدہ آواز سے آمین کہی ۔ 
اس حدیث کو حاکم ، طبرانی ، دارقطنی ، ابو یعلی اور امام احمد نے روایت کیا۔ یہ حدیث آمین کے اخفا میں نص ہے ۔ اس کی سند صحیح ہے ۔ 
حدیثِ سمرہ بن جندب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُاس کی تائید کرتی ہے کہ جب وہ نماز پڑھاتے تو دوبار خاموش ہوتے ۔ ایک بار جب نماز شروع کرتے دوسری بار جب ’’وَ لاَ الضَّالِّیْن‘‘کہتے ۔ لوگوں نے اس پر انکار کیا تو انہوں نے ابی بن کعب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکو لکھا۔ حضرت سیدنا ابی بن کعب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے جواب میں لکھا کہ سمرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ جیسا کرتے ہیں ٹھیک ہے ۔ اس حدیث کو دارقطنی و احمد نے بسند صحیح روایت کیا۔ ابو داؤد کی روایت میں سمرہ بن جندب نے ان دونوں سکتوں کو رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم سے بیان کیا۔ ظاہر ہے کہ پہلا سکتہ ثناء کے لئے تھا ۔ معلوم ہوا کہ آمین پوشیدہ تھی۔ اس حدیث کی سند آثار السنن میں صالح لکھی ہے ۔ 
امام طحاوی ابو وائل سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت سیدنا عمر و علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہمابسم اﷲ شریف اور اعوذ اور آمین میں جہر نہیں کرتے تھے۔ طبرانی کبیر میں ابووائل سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت سیدنا علی و عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہم بسم اﷲ اور اعوذ اور آمین بلند آواز سے نہیں کہتے تھے۔ جوہر التقی میں بحوالہ ابن جریر طبری ابووائل سے روایت ہے کہ حضرت سیدنا عمر و علیرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَابسم اﷲ اور آمین اونچی نہیں کہتے تھے ۔ 
حدیث وائل بن حجر پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ اس میں شعبہ نے تین خطائیں کیں ۔ اول یہ کہ اس نے حجر ابی العنبس کہاہے حالانکہ وہ حجر بن عنبس ہے ۔ جس کی کنیت ابو السکن ہے ۔ دوسرا یہ کہ شعبہ نے اس حدیث میں علقمہ بن وائل کو زیادہ کیا ہے ۔ حالانکہ حجر بن عنبس عن وائل بن حجر صحیح ہے ۔ تیسرا یہ کہ 
اس نے خَفَضَ بِھَا صَوْتَہٗ کہا ہے حالانکہ مَدَّ بِھَا صَوْتَہٗ ہے ۔ اور یہ بھی اعتراض کیا جاتا ہے کہ علقمہ نے اپنے باپ سے نہیں سنا۔ بلکہ وہ اپنے باپ کی موت کے چھ مہینے بعد پیدا ہوئے۔ 
پہلے اعتراض کا جواب یہ ہے کہ حجر بن عنبس کی کنیت ابو العنبس بھی ہے ۔ اور ابو السکن بھی۔ ایک شخص کی دو کنیتیں ہونا بعید نہیں ہے ۔ ابن حبان کتاب النقات میں فرماتے ہیں ۔ 
حَجَرُ بْنُ عَنْبَسٍ اَبُو السَّکُنُ الْکُوْفِیْ وَ ھُوَ الَّذِیْ یُقَالُ لَہٗ حَجَرٌ اَبُو الْعَنْبَسِ یَرْوِِیْ مِنْ عَلِیٍّ وَ وَائِلِ بْنِ حَجَرٍ رَوَی عَنْہُ سَلَمَۃُ بْنُ کُھَیْلٍ اِنْتَہٰی۔  آثار السنن ص ۹۶۔ 
حجر بن عنبس ابو السکن کوفی وہ ہیں جنہیں ابوالعنبس بھی کہا جاتا ہے ۔ ابو داؤد نے آمین کے باب میں ثوری سے بھی حجر بن عنبس کی کنیت ابو العنبس نقل کی ہے ۔ بیہقی نے سنن میں بھی ایسا ہی لکھاہے۔ دارقطنی نے تو وکیع اور محاربی سے یہی نقل کیا ہے کہ انہوں نے ثوری سے اس کی کنیت ابوالعنبس روایت کی۔ کشف الاستار عن رجال معانی الآثار میں بھی ایسا ہی لکھا ہے ۔ معلوم ہوا کہ حجر بن عنبس کی کنیت ابو العنبس بھی ہے ۔ اس میں شعبہ کی خطا نہیں ہے ۔ نہ شعبہ اس میں منفرد ہیں ۔ بلکہ محمد بن کثیر اور وکیع اور محاربی بھی یہی نقل کرتے ہیں ۔ 
دوسرے اعتراض کا جواب یہ ہے کہ بعض روایات میں تصریح یہ ہے 
کہ حجر بن عنبس نے علقمہ سے بھی سنا ہے اور خود وائل سے بھی اس حدیث کو سنا ہے ۔ چنانچہ امام احمد نے اپنے مسند میں روایت کیا ہے ۔ 
عَنْ حَجَرٍ اَبِی الْعَنْبَسِ قَالَ سَمِعْتُ عَلْقَمَۃَ بْنَ وَائِلٍ یُحَدِّثُ عَنْ وَائِلٍ وَ سَمِعْتُ مِنْ وَائِلٍ قَالَ صَلّٰی بِنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم ۔ (1)
ابوداؤدطیالسی نے بھی ایسا ہی روایت کیا ہے ۔ ابو مسلم کجی نے بھی اپنی سنن میں ایسا ہی روایت کیا ہے (آثار السنن) تو معلوم ہوا کہ شعبہ نے اس میں بھی خطا نہیں کی۔ کیونکہ حجر نے یہ حدیث علقمہ سے بھی سنی اس لئے اس نے علقمہ کا ذکر کیا۔ اور وائل سے بھی سنی ۔ اس لئے کسی وقت علقمہ کا ذکر نہیں کیا۔ اور حدیث ۱۷ میں ہم مفصل ذکر کر آئے ہیں کہ علقمہ نے اپنے باپ سے سنا ہے فلا نعیدہ ۔ 
رہی یہ بات کہ سفیان مَدَّ بِھَا صَوْتَہٗ کہتے ہیں اور شعبہ خَفَضَ بِھَاتوکس کی روایت کو ترجیح ہوگی۔ میں کہتا ہوں کہ شعبہ کی روایت کو ترجیح ہے۔ اس لئے کہ شعبہ تدلیس کو اچھا نہیں سمجھتے تھے بلکہ فرماتے تھے کہ میں آسمان سے گر کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جاؤں تو اس سے بہتر ہے کہ میں تدلیس کروں
 (تذکرۃ الحفاظ) اور سفیان ضعفاء (1) سے بھی تدلیس کیا کرتے تھے۔ تو شعبہ کی روایت میں تدلیس کا شبہ نہیں اس لئے اس کو ترجیح ہوگی۔ اور سفیان کی روایت میں تدیس کا شبہ ہے ۔ دوسری وجہ ترجیح یہ ہے کہ آمین دعا ہے اوراصل دعا میں اخفا ہے اﷲ تعالیٰ فرماتاہے  :
اُدْعُوْا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَةًؕ-۔ ( الاعراف ۸/۵۵)
ترجمۂ کنزالایمان : اپنے رب سے دعا کرو گڑگڑاتے اور آہستہ ۔
 اور اکثر صحابہ وتابعین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاآمین خفیہ کہتے تھے ۔ جیسا کہ جوہر التقی ص۱۳۲ میں ہے اس لئے شعبہ کی روایت راجح ہوگی۔ 
نیز حدیث مَدَّ بِھَا صَوْتَہٗکے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ آپ آمین کو بہ لغت مدپڑھتے تھے نہ قصر۔ علاوہ اس کے آمین کی ایک حد بھی حدیث میں آئی ہے وہ حَتّٰی سَمِعَ مَنْ یَلِیہِ مِنَ الصَّفِّ الْاَوَّلِہے ۔ کہ صف اول کے وہ لوگ جن کے لئے حضور نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے تعلیم کے لئے آواز دراز فرمائی۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم  کے مقتدیوں کا آمین بالجہرہرگز ثابت نہیں ۔ تو آج کل مدعیان عمل بالحدیث کا امام کے پیچھے زور سے آمین کہنا محض بے دلیل ہے۔ 





Post a Comment

0 Comments