Hadees 2حدیث {۲}

حدیث {۲}
عَنْ مَعَاذِ بْنِ جَبَلٍ أنّ رَسُوْلَ اﷲِ صَلَّی اﷲُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمَّا بَعَثَہ‘ إِلَی الْیَمَنِ قَالَ کَیْفَ تَقْضِي إِذَا عَرَضَ لَکَ قَضَآئٌ قَالَ أَقْضِي بِکِتَابِ اﷲِ قَالَ فَإنْ لَّمْ تَجِدْ فِيْ کِتَابِ اﷲِ قَالَ فَبِِسُنَّۃِ رَسُوْلِ اﷲِ صَلَّی اﷲُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ فَإنْ لَّم تَجِدْ فِيْ سُنَّۃِ رَسُوْلِ اﷲِ صَلَّی اﷲُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ أَجْتَھِدُ رَأیِيْ وَلا اٰلُوْا قَالَ فَضَرَبَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِيْ صَدْرِہٖ قَالَ الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِيْ وَفَّقَ رَسُوْلَ رَسُوْلِ اﷲِ لِمَا یَرْضٰی بِہٖ رَسُوْلُ اﷲ۔ رواہ الترمذی و أبو داؤد والدارمي (1)
ترجمہ : -حضرت سیدنا معاذ بن جبل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ جب ان کو رسول اﷲ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم  نے یمن کی طرف قاضی بناکر بھیجا تو فرمایا کہ جب تجھے کوئی معاملہ پیش آئے تو تُو کیسے فیصلہ کرے گا۔ حضرت سیدنا معاذ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے عرض کیا کہ میں اﷲ عَزَّوَجَلَّ کی کتاب کے ساتھ حکم کروں گا۔ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے فرمایا اگر اﷲ 
عَزَّوَجَلَّ کی کتاب میں تو اس کا حکم نہ پائے تو پھر کیا کرے گا۔ انہوں نے عرض کی کہ رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی سنت کے ساتھ فیصلہ کروں گا۔ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم  نے فرمایا اگر تو رسول عَلَيْهِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کی سنت میں بھی اس حکم کو نہ پائے تو پھر کیا کرے گا ؟ انہوں نے عرض کی کہ میں اپنی عقل او ر رائے کے ساتھ اجتہاد کروں گا اور طلب ثواب میں کمی نہ کروں گا۔ حضرت سیّدنا معاذ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کہتے ہیں پھررسول کریم رؤف رحیم  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم  نے میرے سینہ پر ہاتھ مارا اور فرمایا الحمد ﷲ عَزَّ وَجَلَّ  کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے قاصد کو اس چیز کی توفیق دی جس کے ساتھ اﷲ تعالیٰ  عَزَّ وَجَلَّکا رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم راضی ہے۔ 
۱۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ استخراج احکام میں قرآن مقدم ہے پھر حدیث ۔ 
۲۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ قرآن کو کھینچ تان کر حدیث کے تابع نہیں کرنا چاہیئے بلکہ حدیث کو قرآن کے تابع کرنا چاہیئے ۔ چنانچہ مسئلہ فاتحہ خلف الامام میں جوکہ مقلدین (1) اور غیرمقلدین (2) کا متنازعہ فیہ (3) مسئلہ ہے اس میں پہلے قرآن دیکھنا چاہیئے ۔ اﷲ تعالیٰ عَزَّ وَجَلَّ قرآن شریف میں فرماتا ہے : 
وَ اِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَ اَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ(۲۰۴)
ترجمۂ کنز الایمان : اور جب قرآن پڑھا جائے تو اُسے کان لگاکر سُنو اور
خاموش رہو کہ تم پر رحم ہو ۔ (اعراف  ۹ / ۲۰۴)
اور حدیث (1) میں آیا ہے اس کی نماز نہیں جو الحمد نہ پڑھے۔ اب ہمیں حدیث کو تابع قرآن سمجھنا چاہیئے کہ یہ حدیث امام اور منفرد کے لئے ہے مقتدی کیلئے نہیں ۔ اس طرح آیت اور حدیث میں تطبیق بھی ہوگئی اور مطلب بھی صاف ہوگیا ۔ لیکن اگر ہم آیت کو کھینچ تان کر یہ مطلب لیں کہ یہ آیت کافروں کے بارے میں ہے حالانکہ کسی حدیث میں اس کا نزول کفار کے بارے میں نہیں آیا ۔ یا یہ کہیں کہ قرآن سے مراد آیت میں الحمد کے آگے سورت ہے ۔ یا یہ کہیں کہ استماع (2) و انصات(3)  کے یہ معنی ہیں کہ اونچی نہ پڑھو وغیرہ وغیرہ ۔ تو اس صورت میں قرآن کو حدیث کے تابع کرنا ہے ۔ جو حدیث مذکور کے خلاف ہے۔ 
آمین بالجہر : (4) 
۳۔ اسی طرح مسئلہ آمین بالجہر میں ہم پہلے قرآن کو دیکھتے ہیں ۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے : 
اُدْعُوْا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَةًؕ- (الاعراف ۸،۵۵)
ترجمۂ کنز الایمان : اپنے رب سے دُعا کرو گڑگڑاتے اور آہستہ ۔
اور ظاہر ہے کہ آمین دعا ہے ۔ اصل دعا میں اخفا (5)  ہے ۔ تو اس آیت کو 
مقدّم سمجھ کر اصل آمین میں اخفاسمجھنا چاہیئے۔ اور اگر کسی حدیث میں رسول کریم  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم  کا آمین کہنا ذرا آواز کھینچ کر بھی آیا ہو تو اسے تعلیم پر حمل کرنا چاہیئے ۔ نہ یہ کہ حدیث کو تو کچھ نہ کیا جائے اور آیت کا کوئی او ر مطلب گھڑا جائے ۔ 
تقلید : (1)
۴۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ تقلید صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا  کے زمانے میں پائی جاتی تھی بلکہ رسول اﷲ  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم  نے تقلید کا ارشاد فرمایا کیونکہ حدیث میں جب کسی مسئلہ کا قرآن و حدیث سے فیصلہ نہ ہوتوحضرت سیدنامعاذ بن جبل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  نے اپنے اجتہاد اور رائے کے ساتھ فیصلہ کرنا کہا اور حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم  نے پسند فرمایا۔ جس سے معلوم ہوا کہ حضرت سیدنا معاذ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اجتہاد سے فیصلہ کریں اور دوسرے مسلمان اس فیصلہ کو تسلیم کریں ۔ کیونکہ حضرت معاذ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے قاضی بنا کر بھیجا۔ تو اگر لوگ ان کے فیصلہ کو قبول نہ کریں تو وہ قاضی کیسے ہوئے ؟ او ر کسی کے اجتہاد کو بلا معرفت دلیل قبول کرنا بھی تقلید ہے ۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ سرور عالم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے حضرت سیدنا معاذ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو یہ نہیں فرمایا کہ اگرکوئی مسئلہ قرآن یا حدیث سے نہ ملے تو مجھ سے دریافت کرلینا ، کسی کو بھیج کر مجھ سے فیصلہ دریافت کرلینا ۔ بلکہ ان کے اجتہاد کو پسند فرمایا۔ جس سے معلوم ہوا کہ مجتہد ، اگرقرآن و حدیث میں صریح (2) مسئلہ نہ پائے تو اجتہاد اور قیاس سے 

جو حکم کرے اس کا حکم ماننا غیر مجتہد پر لازم ہے اور یہی تقلید ہے جو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے زمانہ میں آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی اجازت سے لوگ کیا کرتے تھے ۔       
شیخ عبدالحق رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِاشعۃ اللمعات میں اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں ۔ دریں حدیث دلیل است برشریعت قیاس و اجتہاد بر خلاف اصحاب ظواہر کہ منکر قیاس اند ۔ (1)

ایک شبہ : 

 بعض لوگ شبہ کرتے ہیں کہ حضرت سیدنا معاذ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی حدیث صحیح نہیں ۔ علاّمہ ابن القیّم اعلام الموقعین ص ۷۳ میں اس کے جواب میں فرماتے ہیں کہ اس حدیث کوسب اہل علم نے نقل کیا ہے اور اس کے ساتھ حجت پکڑی ہے ۔ نیز اس کی ایک سند متصل بھی ہے جس کے رجال(2) مؤثق(3) ہیں ۔ پھر بحوالہ خطیب نقل کرتے ہیں : 
قَالَ اَبُوْ بَکْرِ نِ الْخَطِیْبِ وَ قَدْ قِیْلَ اَنَّ عِبَادَۃَ بْنِِ نَسی رَوَاہٗ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ غَنَمِ بْنِ مُعَاذٍ وَ ھٰذَا اِسْنَادٌ مُتَّصِلٌ وَ رِجَالُہٗ  مَعْرُوْفُوْنَ بِالثِّقَۃِ انتھی۔ (4)



Post a Comment

0 Comments