حدیث {۱۱} Hadees 11

حدیث {۱۱}

عَنْ اِبْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم قَالَ مَنْ تَوَضَّأَ وَمَسَحَ 
بِیَدَیْہِ عَلیٰ عُنُقِہٖ وَقَی الْغُلَّ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔ (رواہ ابو الحسن بن فارس : بِاَسْنَادِہِ وَ قَالَ ھٰذَا اِنْ شَائَ اللّٰہُ تَعَالیٰ حَدِیْثُ صَحِیْحٌ۔  تَلْخِیْصُ الْحَبِیْرِ ۔ (1)
ترجمہ : -  حضرت ابن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کہتے ہیں کہ رسول کریم ، رؤف رحیمصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمنے فرمایا جو شخص وضو کرے اور اپنے دونوں ہاتھوں سے گردن کا مسح کرے وہ قیامت کے دن طوق سے محفوظ رکھا جائے گا ۔ 
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ گردن کا مسح کرنا مستحب امر ہے ۔ چونکہ اس میں مواظبت (2) ثابت نہیں اس لئے سنت نہیں ۔ اس کی تائید میں وہ حدیث ہے جس کو دیلمی نے مسند فردوس میں ابن عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت کیا ہے کہ نبی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے فرمایا : 
مَنْ تَوَضَّأَ وَمَسَحَ عَلیٰ عُنُقہٖ وَقَی الْغُلَّ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔
ترجمہ : کہ جو شخص وضو ٔ  کرے اور گردن کا مسح کرے وہ قیامت کے دن طوق سے محفوظ رہے گا۔ احیاء السنن ص ۳۸
اِس کی تائید میں وہ حدیث ہے جس کو امام محمد رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے روایت کیا کہ طلحہ اپنے باپ سے وہ اس کے جد سے روایت کرتے ہیں کہ اس نے رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کو دیکھا کہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم  سر کا مسح کرتے یہاں تک کہ قذال(کیاڑی کا اول حصہ) (3) تک پہنچ جاتے جو کہ متصل ہے گردن کی اگلی جانب کو ۔ ابن 
تیمیہ نے منتقی  ص ۱۸ میں اس حدیث سے مسح گردن کے ثبوت پر استدلال کیا ہے ۔ نیز ابو عبید کتاب الطہور میں موسی بن طلحہ سے روایت کرتے ہیں : 
اَنَّہ‘ قَالَ مَنْ مَسَحَ قَفَاہُ مَعَ رَاسِہٖ وَقَی الْغُلَّ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔
 موسیٰ بن طلحہ فرماتے ہیں جو شخص پشت گردن کا مسح سر کے ساتھ کرے وہ قیامت کے دن طوقِ نار سے محفوظ رہے گا (تلخیص ص ۳۴) علامہ زیلعی نے تخریج ہدایہ کے ص ۸ میں مسند بزار کی روایت سے رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے وضو کی حکایت نقل کی ہے جس میں یہ الفاظ ہیں : 
ثُمَّ مَسَحَ عَلیٰ رأَسِہٖ ثَلٰثاً وَ ظَاھِرِ اُذُنَیہِ ثَلثاً وَظَاھِرِِ رَقَبَتِہِ۔
اس حدیث میں ظاہر گردن کا مسح ثابت ہوتا ہے۔ بہر حال مسح گردن مستحب ہے بدعت نہیں ۔ شیخ ابن الہمام فتح القدیر میں فرماتے ہیں : 
اَلْاِسْتِحْبَابُ یَثْبُتُ بِالضَّعِیْفِ غَیْرَ الْمَوْضُوْعِ۔
ترجمہ : کہ حدیث ضعیف سے استحباب ثابت ہوتا ہے۔
امام نووی کتاب الاذکار ص ۱۶ میں فرماتے ہیں : 
قَالَ الْعُلَمَائُ مِنَ الْمُحَدِّثِیْنَ وَالْفُقَھاء وَغَیْرُھُمْ یَجُوْزُ وَ یَسْتَحِبُّ الْعَمَلُ فِي الْفَضَائِلِ وَالتَّرْغِیْبِ وَالتَّرْھِیْبِ بِالْحَدِیْثِ الضَّعِیْفِ مَالَمْ یَکُنْ مَوْضُوْعًا۔ 


ترجمہ : مُحَدِّثِیْن و فُقَہَاء وغیرہم فرماتے ہیں کہ ضعیف حدیث پر فضائلِ اعمال اور ترغیب(1) و ترہیب(2) میں عمل کرنامستحب ہے ۔ ہاں موضوع (3)پر عمل جائز نہیں تو حدیث مسح گردن اگرچہ ضعیف ہے اس پر عمل کرنا محدثین و فقہاء کے نزدیک مستحب ہے اس لئے کہ یہ فضائل اعمال میں سے ہے ۔ اس زمانہ کے مدعیان عمل بالحدیث پر افسوس ہے کہ انہوں نے مسح گردن بالکل ترک کردیا ہے ۔ بلکہ بدعت(4)  کہتے ہیں ۔ اﷲ تعالیٰ ان کو سمجھ دے۔ 

________________________________
1 -     اعمالِ صالحہ کیلئے شوق بڑھانا۔ 
2 -     گناہوں کے عذاب سے ڈرانا۔ 
3 -     من گھڑت روایت۔ 
4 -     بدعت بُرا طریقہ بدعت کے بارے میں حضرت ابو حجیفہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا : جس نے اچھا طریقہ ایجاد کیا کہ اس کے بعد لوگ اس پر عمل پیرا ہوئے تو سب عمل کرنیوالوں کے برابر اس کو ثواب ملے گا اور ان کے ثواب میں کمی نہ ہوگی۔ اور  جس نے برا طریقہ نکالا کہ لوگ اس کے بعد اس روش پر چلے تو سب کا گناہ اس کے سر ہوگا جبکہ ان کے گناہوں سے کچھ کم نہ ہوگا۔ (سّنن ابن ماجہ ، المقدّمۃ ، ۱ ، ۱۹ )اس حدیث ِ پاک کی روشنی میں معلوم ہوا کہ بدعت اچھے یا بُرے طریقہ کو کہتے ہیں۔ جن احادیث میں بدعت کی مذمت آئی ہے اُس سے مراد بُری بدعت ہے ۔ 

Post a Comment

0 Comments